ماضی کے مضافات سے ہجرت نہیں کرتا
اک پل ہے جو اب تک مجھے رخصت نہیں کرتا
رہتی ہے تری یاد ہمیشہ مرے دل میں
یہ ایسا پرندہ ہے جو ہجرت نہیں کرتا
دل اب بھی دھڑکتا ہے ترے نام پہ لیکن
اے دوست وُہ پہلی سی قیامت نہیں کرتا
سہتا ہوں جو دل میں وہی کہتا ہوں غزل میں
میں اپنے اجالے میں خیانت نہیں کرتا
سر شام کے مقتل میں کٹا دیتا ہے ہر روز
خورشید کبھی رات کی بیعت نہیں کرتا
ارمان مرا ملک بھی جنگل ہے جہاں پر
انسان کبھی کوئی حکومت نہیں کرتا