قاصر کی مشہور زمانہ غزل کی زمین میں ، میری کاوش حاضر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کو علم ہے اس دنیا میں ہم بھی چھیل چھبیلے تھے
ہم بھی احمد شاہ تھے یارو ہم بھی رنگ رنگیلے تھے
دن میں سورج نے دنیا کو نور کا تحفہ بخشا تھا
” رات کو چاند نے نذر کیے جو تار ے کم چمکیلے تھے”
ہر اک نار سے پریت لگا کر وقت بہت برباد کیا
ہر ناری پر مٹ جاتے تھے ہم بھی بڑے ہٹیلے تھے
جن کو ہم نے دل سے چاہا انکی حلاوت کیا کہیے
ان کی باتیں شیریں شیریں انکے ہونٹ رسیلے تھے
ہم نے جن کو پیا رکیا تھا انکی ملاحت کیا کہنا
عارض ان کے کان۔ نمک تھے انکے بدن نمکیلے تھے
جن کو ہم سمجھے تھے گلستا ں جن کو جنت سمجھے تھے
آنکھ کھلی تو علم ہو ا کے سارے ریت کے ٹیلے تھے