آنکھیں جو کھلیں تو
اب یاد نہیں کہ شہر جاں میں
وہ کیسی عجب ہوا چلی تھی
... جو مجھ کو مری ہی زندگی سے
اس سمت اڑا کے لے گئ تھی
پاؤں کے تلے تھی دھند گویا
اور سر پہ سنہری چاندنی تھی
آنکھوں میں عجیب سی تھی ٹھنڈک
چہرے پہ گل آب کی نمی تھی
کچھ دور ستار بج رہا تھا
یا وجد میں کوئ بانسری تھی
آہستہ سے میرا نام لے کر
اک شخص نے کوئ بات کی تھی
آنکھیں جو کھلیں تو میں نے دیکھا
میں کوچۂ عشق میں کھڑی تھی