تم ایسی صبحوں ، تم ایسی شاموں میں
اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو
کہ جب ہوائیں
سپردگی سے نہال ہوکر
تمھارے پہلو میں ڈولتی ہوں
تمھارے آنچل سے کھیلتی ہوں
تم ایسی صبحوں ، تم ایسی شاموں میں
اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو
کہ جب ہوائیں
اداس لہجے میں تم سے پوچھیں
تمھاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے
تمھارے چہرے پہ کیا لکھا ہے
تمھارے اٹھتے ہوئے قدم پر
یہ لڑکھڑاہٹ سی کس لیے ہے
تم ایسی صبحوں ، تم ایسی شاموں میں
اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو
کہ جب ہوائیں
بدلتے موسم کی سازشوں میں شریک ہوکر
تمھارے جی میں غلط بیانی کا زہر گھولیں
تمھارے بارے میں جھوٹ بولیں
سنو اے پیاری سی ، سانولی سی ، سجیلی لڑکی
یہی ہوائیں تو آتے جاتے مسافران رہ پر
ہزار تہمت اچھالتی ہیں
محبتوں پر یقین نہ ہو تو
دلوں میں پیہم
ہزاروں واہموں کو ڈالتی ہیں
تم ایسی صبحوں ، تم ایسی شاموں میں
اپنے گھر سے کبھی نہ نکلو
کہ جب ہوائیں.......!!