کبھی یاد آؤ تو اس طرØ+

کہ لہو کی ساری تمازتیں

تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں

تمہں رنگ رنگ نکھار دیں

تمہیں Ø+رف Ø+رف میں سوچ لیں

تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو

تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو

مژہ کی نوک سے نوچ لیں

کبھی یاد آؤ تو اس طرØ+

کہ دل و نظر میں اُتر سکو

کبھی Ø+د سے Ø+بسِ جنوں بڑ ہے

تو Ø+واس بن Ú©Û’ بکھر سکو

کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں

کبھی خونِ جگر میں سنور سکو

سرِ رہگزر جو ملو کبھی

نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو

مرا درد پھر سے غزل بنے

کبھی گنگناؤ تو اس طرØ+

مرے زخم پھر سے گلاب ہوں

کبھی مسکراؤ تو اس طرØ+

مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں

کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرØ+

جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے

سبھی رابطے سبھی ضابطے

کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو

نہ شکستِ دل کا ستم سہو

نہ سنو کسی کا عذابِ جاں

نہ کسی سے اپنی خلش کہو

یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو

نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں

کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرØ+

نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں

کبھی بھول جاؤ تو اس طرØ+

کسی طور جاں سے گزر سکیں

کبھی یاد آؤ تو اس طرØ+

کبھی یاد آؤ تو اس طرØ+!!!!!!!!!!


Ù…Ø+سن نقوی