’’ وہ تو سب درد کے لمحے تھے ‘‘
وہ تو اِک خواب پریشاں تھا جو میں نے دیکھا
’’ وہ تو سب درد کے لمحے تھے ‘‘
جو مجھ پر گزرے
میرے ویران مہ و سال
مرے شام و سحر
میری مجروح محبت ۔ مری درماں طلبی
سرِ دہلیزِ رقیباں
مری دریوزہ گری
آنکھ میں اشک ندامت کے
تو چہرے پہ فشارِ دل و جاں
میرا ماضی بھی اندھیرا
مرا فردا بھی دھواں
میں کہاں ڈھونڈتا
کھوئی ہوئی ہستی کے نشاں
تُو یہاں تھا نہ وہاں
میں یہاں تھا نہ وہاں
’’ وہ تو سب درد کے لمحے تھے ‘‘
جو مجھ پر گزرے
پھر یہ کیوں ہے
کہ مرا جسم مرا خوں
نہ ہُوا خاکستر
کون اس درد کے دوزخ میں
مہ و سال تک جل کے بھی
استادہ رہا
زندہ رہنے پہ مصر
اور نئی زیست کا دلدادہ رہا
نئی سَج دَھج سے بسر کرنے پہ آمادہ رہا
بس اسی درد کے دوزخ کا رہا ہوں ایندھن
اب جو ابھرا ہوں تو اس آگ سے کندن ہو کر
میں نے اس حسن کو پایاہے بہت کچھ کھو کر
اپنے بکھرے ہوئے پندار کا ریزہ ریزہ
چُن رہا ہوں شبِ صحرا سے ستاروں کی طرح
اپنے ملبوسِ دریدہ کے پریشاں ٹکڑے
جنبشِ سوزنِ اُمید کی خیاطی سے
سی رہا ہوں کہ مرا جسم برہنہ نہ رہے
میرے دیرینہ حریفوں کے لبوں پر کوئی طعنہ نہ رہے
مجھ پہ قرضِ غمِ جان و غمِ دنیا نہ رہے
’’ وہ تو سب درد کے لمحے تھے ‘‘
جو مجھ پر گزرے
اور اب نئے موسم میں
کسی شعلہءِ بے باک کسی پرچمِ پرّاں کی طرح
کرہءِ خاک میں لہرانے لگا ہوں پھر سے
اے مرے لمحہءِ آئندہ مرے شوق کے فردا
تری منزل کی طرف آنے لگا ہوں پھر سے
اپنے خاشاک کو
انگار سے چمکانے لگا ہُوں پھر سے
’’ وہ تو سب درد کے لمحے تھے ‘‘
جو مجھ پر گزرے۔۔۔۔
احمد فراز۔۔۔