وصال نبوی صلی الله علیه وسلم پر صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اپ کی وفات کی خبر ملی تو وہ مدینے میں ائے اور مسجد کے دروازے پر اونٹ سے اترے اس وقت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کے سامنے یہ تقریر کر رہے تھے ، ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی اور طرف متوجہ ہوئے بغیر سیدھے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حجرے میں رسول پاک کے پاس ائے جو اس حجرے کی ایک سمت میں چت لیٹے ہوئے تھے اور ایک چادر اپ پر پڑی ہوئ تھی،

ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پاس آ کر اپ کا منہ کھولا اور پھر اپ کو بوسہ دیا اور کہا میرے ماں باپ آپ پر نثار ، وہ موت جو اللہ پاک نے اپ کے لیئے مقدر کی تھی وہ اپ کو آ گئی اب اس کے بعد اپ کبھی نہ مریں گے،، پھر آپ کا چہرہ مبارک ڈھانپ دیا اور حجرے سے نکل کر مسجد میں ائے، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت تک تقریر کر رہے تھے، ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اب تم خاموش رہو مگر انہوں نے نہ مانا اور برابر تقریر کرتے رہے ، جب ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کے اپ خاموش نہیں کر رہے تو انتظار کیئے بناء وہ خود سامنے ائے اور تقریر شروع کی

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریر شروع کی حمدوثناء کے بعد اپ نے کہا اے لوگوں خبردار ہو جاو کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتے تھے وہ سن لیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے، اور جو اللہ کی عبادت کرتے تھے ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ زندہ جاوید ہے جو کبھی نہیں مرے گا ، اس کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ پوری آئت تلاوت کی

ترجمہ، محمد بھی ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں بے شک ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں ،

اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ گویا وہ اس آیت کے نزول سے آج ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تلاوت کرنے سے قتل تک واقف ہی نہ تھے او اسی دن سے لوگوں نے اس آئت کو ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سن کر یاد کر لیا ,

خود عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تلاوت کرنے سے قبل میں اس آئت سے واقف ہی نہ تھا مر اس کو سن کر میری جان نکل گئی، میں گر پڑا مجھ سے اٹھا نہیں گیا اور اب مجھے معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئ،

تاریخ طبری