سر گزشت دل کو رو داد جہاں سمجھا تھا میں
مختصر سی بات کو اک داستاں سمجھا تھا میں
بن گئی میرے لیے اک اضطراب مستقل
جس محبت کو سکون قلب و جاں سمجھا تھا میں
وہ بھی میری گردش تقدیر کا اک دور تھا
جس کو اب تک انقلاب آسماں سمجھا تھا میں
وہ توکہئیے محبت نے آنکھیں کھول دیں
زندگی کو ورنہ اک راز نہاں سمجھا تھا میں
رشک رہ رہ کر نہ کیوں آئے نصیب غیر پر
وہ اسی محفل میں شامل تھے جہاں سمجھا تھا میں
وادی غربت میں یوں گم کردہ منزل تھا شکیل
رہزن منزل کو خضر کارواں سمجھا تھا میں