اندھیروں سے بھرا وہ دِن بھی کیا تھا؟
کہ سوُرج بھی سِتارہ لگ رہا تھا



جِسے پَل بھر لگا ہے بھولنے میں
وہ صدیوں سے ہمارا آشنا تھا



میری تنہائی نے لَب سی لیے تھے
اُداسی کا سمندر گُونجتا تھا



ہوَا کس بھولپن سے پوُچھتی ہے
میرے گھر کا دِیا کیسے بُجھا تھا؟



بھنور نے اُس کی آنکھیں چھیل ڈالیں
وہ دریاؤں میں موتی ڈھونڈتا تھا



اُسے مِلنا صلیبوں کی گلی میں
اُسے کہنا‘ وہ سچ کیوں بولتا تھا؟



پہَن کر تَن پہ سوُرج کی شُعاعیں
وہ گلیوں سے اندھیرے چُن رہا تھا



بہت سُنتے تھے ہم اُس کی خموشی
وہ تنہائی میں کم کم بولتا تھا



بَدن میں تھا کہ گھر میں زَلزلہ تھا
میرا سایہ بھی چھَت سے گِر پڑا تھا



میرے جَلتے ہوئے خیمے کے ڈر سے
سوا نیزے پہ سوُرج کانپتا تھا



یہ سوکھی جھیل کا بے عکس پانی
کبھی مہتاب اِس میں تیرتا تھا



جُدائی کے دِنوں میں سوچتے ہیں
کوئی ہم میں یقیناً بے وفا تھا



مُجھے اگلے سفر سے روکنے کو
غبارِ راہ تک پاؤں پڑا تھا



اُسے رستے میں کل دیکھا تھا "محسن"
اُداسی میں وہ اچھاّ لگ رہا تھا