شادی بیاہ کی رسومات

نکاح ہماری زندگی کا ایک اہم فریضہ ہے جسے اسلام نے بہت آسان بنایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہ کرام نے اس فریضے کو سادگی سے انجام دے کر ہمارے لئے بہترین نمونہ پیش کیا۔لیکن آجکل کی غیر شرعی رسومات جنکی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کئے گئے نمونے میں دور تک کوئی مثال نہیں ملتی اس آسان فریضے کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ یوں تو بےجا نمود و نمائش ہماری زندگی کے ہر معاملے پر حاوی ہوتی جا رہی ہے،لیکن شادی بیاہ کے معاملے میں یہ حد سے آگے بڑھ گئی ہے۔ان رسومات نے ایک سماجی برائی کی صورت اختیار کر لی ہے۔کئی خاندانوں میں یہ رسومات دنوں اور ہفتوں جاری رہتی ہیں اور اس موقع پر لینے دینے، پہننے اوڑھنے، سجاوٹ و آرائش اور کھانے پینے کی مد میں لاکھوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں اور بعض والدین سالوں ان شادیوں پر لئے گئے قرض اتارتے رہتے ہیں۔انہیں اخراجات اور جہیز کی لعنت کا شکار ہزاروں بیٹیاں اپنے گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔امیروں کیلئے یہ تقریبات رزق حرام کی نمائش ہوتی ہیں اور غریب عوام کیلئے ایک ناقابل برداشت بوجھ۔۔
جہیز کی لعنت ہمارے معاشرے میں ایسے سرائیت کر گئی ہے کہ اس سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا ہے۔ذرا سوچئے کہ جس آدمی کی 2 سے زیادہ بیٹیاں ہوں وہ کہاں سے ہر بچی کی لئے زیور، کپڑے اور کھانے کا بندو بست کرے۔مہنگائی کا جو عالم ہے اسمیں تو تن ڈھانکنے کو کپڑا اور پیٹ میں ڈالنے کو روٹی مل جائے تو غنیمت ہے۔اس جہیز کی لعنت کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنے دینی فرائض کو بھلا کر پیسہ جمع کرنے کی مشین بنے ہوئے ہیں، نہ انکو اپنی نمازوں کا ہوش ہے نہ دین کی خدمت کا، دن رات ایک دھن سوار ہے کہ پیسہ جمع کریں تاکہ بیٹیوں اور بہنوں کی شادی کا بندو بست کر سکیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہمارے لئے بہترین مثالیں ہیں انہوں نے اپنی بیٹیوں کو جہیز میں کیا دیا تھا اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواج مطہرات جہیز میں کیا لیکر آئی تھیں اور کن کن کے گھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بارات لیکر گئے تھے۔یہ سب فضولیات خالص ہندوانہ ہیں جو ہم نے بلا سوچے سمجھے اپنا لی ہیں۔ نکاح تو خیر اور برکت کا کام ہے اب یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم خود نہیں چاہتے کہ ہماری شادیوں میں برکت والی کوئی چیز شامل ہو۔
شادی کی رسموں میں جہیز کے بعد دوسری سب سے بڑی برائی مہندی کی تقریب ہے۔ پہلے تو صرف نکاح اور ولیمہ کا کھانا ہوتا تھا اب مایوں اور مہندی کے کھانے کا اضافی بوجھ بھی شامل ہو گیا ہے

ایک مسلمان ہونے کہ ناطے، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کے ناطے ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم خود کو اور لوگوں کو اس بوجھ سے آزاد کروانے کی بھرپور کوشش کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرماں ہے کہ سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچہ ہو۔
اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم سادگی سے نکاح کرنا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسجد میں نکاح کر دیا جائے تو شادی ہال، بارات، بارات کے کھانے، آمدورفت غرض ہزار طرح کے اخراجات کی نوبت ہی نہیں آئیگی۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کا نکاح انتہائی سادگی سے مسجد میں کیا۔
کیا ہم کو یہ زیب دیتا ہے کہ ہم اصراف کرتے ہوئے گھروں کی آرائش و زیبائش اور بجلی کا بیجا استعمال، رزق کی بے حرمتی جیسے مظاہرے کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں واضح اور مفصل ہدایات دی ہیں اور ان پر عمل کرکے بھی دکھایا ہے۔ تو کیاشادی بیاہ کے مسئلے میں ہمیں مہندی، مایوں کے نام پر مخلوط محافل ، ویڈیوز،رقص و موسیقی کا کہیں حکم ملتا ہے؟ یا بارات اور بارات کے کھانے کی کہیں کوئی مثال ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام اجمعین کے نکاح کے مواقعوں پر۔

حقیقت تو یہ ہے کہ نکاح کی لئے کم از کم دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کا ہونا لازمی ہے جو اپنے کانوں سے نکاح اور ایجاب و قبول کے الفاظ سنیں۔ نہ یہ کہ پوری بارات جمع کی جائے۔اگر نکاح کے موقعے پر لڑکی والوں کے گھر کھانے کا اہتمام کرنے میں کوئی کار خیر ہوتا تو اللہ کے رسول ہمیں اسکا حکم دیتے اور صحابہ کرام اس پر عمل کرتے لیکن ہمیں اسکی مثال کسی حدیث سے نہیں ملتی ۔ دیکھا جائے تو یہ عجیب کم ظرفی کی بات ہے کہ جسکی لڑکی رخصت کروا کے لا رہے ہیں اس پر بارات کے کھانے اور پھر جہیز کا بوجھ بھی ڈال دیں۔ یا ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ شادی بیاہ کے معاملے میں معاذاللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی کوتاہی ہو گئی ہے جو ہمیں ان رسومات کا حکم نہیں دیا جو ہم نے اپنا رکھی ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہمیں صرف ولیمہ کے کھانے کا حکم ملتاہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا ولیمہ ایسا نہیں کیا جیسا کہ ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نی ایک بکری سے انکا ولیمہ کیا۔(صحیح بخاری/کتاب النکاح/ 1855)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کا ولیمہ دو مد جو میں ہی کر دیا۔(صحیح بخاری/کتاب النکاح/ 1856)
ولیمہ کا کھانا اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور مساکین کو کھلانا سنت ہے اسکے لئے کسی بڑے پیمانے پر انتظام کی ضرورت نہیں بلکہ تھوڑا کھانا چند لوگوں کو کھلا دینا کافی ہے۔جس ولیمے میں غریب شریک نہ کئے جائیں اور جو نام و نمود کی خاطر کیا جائے اسمیں کچھ خیروبرکت نہیں بلکہ اللہ کی ناراضگی کا خدشہ ہے۔
ہمارا اصل جہاد یہ ہے کہ ہم ان ظالمانہ، سراسر اصراف و نمائش پر مبنی رسومات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔ خاص طور پر میری اپنے بھائیوں سے درخواست ہے کہ اگر آپ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھتے ہیں تو ان رسومات سے اپنے گھر والوں کو منع کریں اور سادگی سے نکاح کر کے دوسروں کے لئے مثال قائم کریں۔اندھیرے میں روشنی کی ایک چھوٹی سی کرن بھی اجالا کر دیتی ہے۔
انشا اللہ نیک نیتی سے کئے گئے اعمال کی اللہ تعالی اس دنیا میں اور آخرت میں جزا عطا فرمائیں گے۔ آمین۔ یا رب العالمین۔