Results 1 to 3 of 3

Thread: ~ libaas kay adaab ~

  1. #1
    Join Date
    Feb 2008
    Location
    manchester
    Age
    39
    Posts
    11,319
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    49 Thread(s)
    Rep Power
    21474864

    Default ~ libaas kay adaab ~

    ~ libas kay aadab ~

    لباس ايسا پہنيے جو شرم و حيا، غيرت و شرافت اور جسم کي ستر پوشي اور حفاظت کے تقاضوں کو پورا کرے اور جس سے تہذيب و سليقہ اور زينت و جمال کا اظہار ہو۔
    قرآن پاک ميں خدا تعالي نے اپني اس نعمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمايا۔
    اے اولاد آدم ۔ہم نے تم پر لباس نازل کيا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے زينت اور حفاظت کا ذريعہ بھي ہو۔
    ريش دراصل پرندے کے پروں کو کہتے ہيں، پرندے کے پر اس کے حسن و جمال کا بھي ذريعہ ہيں اور جسم کي حفاظت کا بھي۔عام استعمال ميں ريش کا لفظ جمال و زينت اور عمدہ لباس کيلئے بولا جاتا ہے۔
    لباس کا مقصد زينت و آرائش اور موسمي اثرات سے حفاظت بھي ہے ليکن اولين مقصد قابل شرم حصوں کي ستر پوشي ہے۔ خدا نے شرم و حيا انسان کي فطرت ميں پيدا فرماي ہے۔ يہي وجہ ہے کہ جب حضرت آدم عليہ سلام اور حضرت حوا عليہ اسلام سے جنت کا لباس فاخرہ اتروا ليا گيا تو وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے جسموں کو ڈھانپنے لگے۔
    اس لئے لباس ميں اس مقصد کو سب سے مقدم سمجھے اور ايسا لباس منتخب کيجئے جس سے ستر پوشي کا مقصد بخوبي پورا ہو سکے۔ساتھ ہي اس کا بھي اہتمام رہے کہ لباس موسمي اثرات سے جسم کي حفاظت کرنے والا بھي ہو اور ايسے سليقے کا لباس ہو جو زينت و جمال اور تہذيب کا ذريعہ ہو۔ ايسا نہ ہو کہ اسے پہن کر آپ کوئي عجوبہ يا کھلونا بن جائيں اور لوگوں کيلئے ہنسي اور دل لگي کا موضوع مہيا ہو جائے۔
    لباس ہميشہ اپني وسعت اور حيثيت کے مطابق پہنئے، نہ ايسا پہنئيے جس سے فخر و نمائش کا اظہار ہو اور آپ دوسروں کو حدير سمجھ کر اترائيں اور اپني دولت مندي کي بے جا نمائش کريں اور نہ ايسا لباس پہنے جو آپ کي وسعت سے زيادہ قيمتي ہوا۔
    آپ فضول خرچي کے گناہ ميں بھي مبتلا ہوں، اور نہ ايسے شکتہ حال بنے رہيں کہ ہر وقت آپ کي صورت سوال بني رہے اور سب کصھ ہونے کے باوجود آپ محروم نظر آئيں۔
    بلکہ ہميشہ اپني وسعت و حيثيت کے لحاظ سے موزوں با سليقہ اور صاف ستھرے کپڑے نظر آئيں۔
    بعض لوگ پھٹے پرانے کپڑے اور پيوند لگے کپڑے پہن کر شکستہ حال بنے رہتے ہيں اور اس کو دين داري سمجھتے ہيں اتنا ہي نہيں بلکہ وہ ان لوگوں کو دنيا دار سمجھتے ہيں جو صاف ستھرے سليقے والے کپڑے پہنتے ہيں، حالانکہ دين داري کا يہ تصور سراسر غلط ہے، حضرت ابو الحسن علي شاہ ذلي ايک بار نہايت ہي عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے۔
    کسي شکستہ حال صوفي نے اس کے اس ٹھاٹ باٹ پر اعتراض کيا کہ بھلا اللہ والوں کو ايسا بيش بہا لباس پہننے کي کيا ضروت ہے؟ حضرت شاذلي نے جواب ديا، بھائي يہ شان و شوکت عظم و شان والے خدا کي حمد و شکر کا اظہار ہے۔
    تمہاري يہ شکستہ حال صورت سوال ہے تم زبان حال سے بندوں سے سوال کر رہے ہوں، در اصل دين داري کا انحصار نہ پھٹے پرانے پيوند لگے گھٹيا کپڑے پہننے پر ہے اور نہ لباس فاخرہ پر، دين دار کا دارومدار آمدي کي نيت اور صيح فکر پر ہے۔
    صيح بات يہ ہے کہ آدمي ہر معاملہ ميں اپني وسعت اور حيثيت کا لحاظ کرتے ہوئے اعتدال اور توازن کي روش رکھے نہ شکتہ صورت بناکر نفس کو موٹا ہونے کا موقع دے اور نہ زرق برق لباس پہن کر فخر و غرور دکھائے۔
    ے دوسري مخلوقات اس سے محروم ہيں۔ اس امتيازي بخشش و انعام پر خدا کا شکر ادا کيجئے اور اس امتيازي اعنام سے سر فراز ہو کر کبھي خدا کي ناشکري اور نا فرماني کا عمل نہ کيجئے۔ لباس خدا کي ايک زبردست نشاني ہے۔ لباس پہنيں تو اس احساس کو تازہ کيجئے اور جذبات کا شکر کا اظہار اس دعا کے الفاظ ميں کيجئے جو نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے مومنوں کو سکھائي ہے۔
    بہترين لباس تقوي کا لباس ہے۔ تقوي کے لباس سے باطني پاکيزگي بھي مراد ہے اور ظاہري پرہيزگاري کا لباس بھي۔ يعني ايسا لباس پہنيئے جو شريعت کي نظر ميں پرہيز گاروں کا لباس ہو۔ جس سے کبر و غرور کا اظہار نہ ہو، جو نہ عورتوں کيلئے مردوں سے مشابہت کا ذريعہ ہو اور نہ مردوں کيلئے عورتوں سے مشابہت کا۔ايسا لباس پہنئيے جس کو ديکھ کر محسوس کيا جا سکے کہ لباس پہننے والا کوئي خدا ترس اور بھلا انسان ہے اور عورتيں لباس ميں ان حدود کا لحاظ کريں جو شريعت نے ان کيلئے مقرر کي ہيں اور مردان حدود کا لحاظ کريں جو شريعت نے ان کيلئے مقرر کي ہيں۔
    نيا لباس پہنيں تو کپڑے کا نام ليکر خوشي کا اظہار کيجئے کہ خدا نے اپنے فضل و کرم سے يہ کپڑا عنايت فرمايا اور شکر کے جذبات سے سرشار ہو کر نيا لباس پہننے کي وہ دعا پڑھئيے جو نبي صلي اللہ عليہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔
    حضرت ابو سعيد خدري فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم جب کوئي نيا کپڑا ، عمامہ، کرتا يا چادر پہنتے تو اس کا نام ليکر فرماے ۔۔ خدايا تيرا شکر ہے تو نے مجھے يہ لباس پہنايا۔ ميں تجھ سے اس کے خير کا خواہاں ہوں اور میں اپنے آپ کو تيري پناہ ميں ديتا ہوں، اس لباس کي برائي سے اور اس کے مقد کے اس برے پہلو سے جس کيلئے يہ بنايا گيا ہے۔
    دعاکا مطلب يہ ہے کہ خدايا تو مجھے توفيق دے کہ ميں تيرا بخشا ہوا لباس انہي مقاصد کيلئے استعمال کروں جو تيرے نزديک پاکيزہ مقاصد ہيں۔مجھے توفيق دے کہ ميں اس سے اپني ستر پوشي کر سکوں اور بے شرمي ، بے حيائي کي باتوں سے اپنے ظاہر و باطن کو محفوظ رکھ سکوں اور شريعت کے حدو د ميں رہتے ہوئے ميں اس کے ذريعہ اپنے جسم کي حفاظت کر سکوں اور اس کو زينت و جمال کا ذريعہ بنا سکوں۔ کپڑے پہن کر نہ تو دوسروں پر اپني بڑائي جتائوں ، نہ غرور اور تکبر کروں اور نہ تيري اس نعمت کو استعمال کرنے ميں شريعت کي ان حدود کو توڑوں جو تو نے اپنے بندوں اور بنديوں کيلئے مقرر فرمائي ہيں۔
    حضرت عمر رضي اللہ تعالي عنہ کا بيان ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا۔۔ جو شخص نئے کپڑے پہنے اگر وہ گنجائش رکھتا ہو تو اپنے پرانے کپڑے کسي غريب کو خيرات ميں دے دے اور نئے کپڑے پہنتے وقت يہ دعا پڑھے۔
    ساري تعريف و حمد اس خدا کيلئے ہے جس نے مجھے يہ کپڑے پہنائے جس سے میں اپني ستر پوشي کارتا ہوں اور جو اس زندگي ميں ميرے حسن و جمال کا بھي ذريعہ ہے۔
    جو شخص بھي نيا لباس پہنتے وقت يہ دعا پڑھےگا اللہ تعالي اس کو زندگي ميں بھي اور موت کے بعد بھي اس کو اپني حفاظت اور نگراني ميں رکھے گا۔
    کپڑے پہنتے وقت سيدھي جانب کا خيال رکھيں،قميض کرتہ شيرواني اور کوٹ وغيرہ پہنيں تو پہلے سيدھے پير ميں پائنچہ ڈاليں نبي اکرم جب قميض پہنتے تھے تو پہلے سيدھي آستين ميں ڈالتے اور پھر الٹا ہاتھ الٹي آستين ميں ڈالتے، اسي طرح جب آپ جوتا پہنتے تو پہلے سيدھا پائوں سيدھے جوتے ميں ڈالتے پھر الٹا پائوں الٹے جوتے ميں ڈالتے اور جوتا اتارتے وقت پہلے الٹا پائوں جوتے ميں سے نکالتے پھر سيدھا پائو نکالتے۔
    کپڑے پہننے سے پہلے ضرور جھاڑ ليجئے،ہو سکتا ہے اس ميں کوئي موذي جانور ہو اور خدانخواستہ کوئي ايذا پہنچائے، نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم ايک بار جنگل ميں اپنے موزے پہن رہے تھے، پہلا موزہ پہننے کے بعد جب نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے دوسرا موزہ پہننے کاارادہ فرمايا تو ايک کوا جھپٹا اور وہ موذا اٹھاکر اڑا لے گيا، اوپر جاکر اسے چھوڑ ديا، موزہ جب اونچائي سے نيچے گرا تو گرنے کي جوٹ سے اس ميں سے ايک سانپ دو جا پڑا، يہ ديکھ کر آپ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے شکر ادا کيا اور ارشاد فرمايا ہر مسلمان کيلئے ضروري ہے کہ جب موزہ پہننے کا ارادہ کرے تو اس کو جھاڑ ليا کرے۔
    لباس سفيد پہنئے، سفيد لباس مردوں کيلئے پسنديدہ ہے، نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سفيد کپڑے پہنا کرو، يہ بہترين لباس ہے، سفيد کپڑا ہي زندگي ميں پہننا چاھئيے، اور سفيد کپڑے ميں مردوں کو دفن کرنا چاہئيے۔
    ايک اور موقع پر آپ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم سفيد کپڑاپہنا کروں سفيد کپڑا زيادہ صاف ستھرا ہوتا ہے، اور اسي ميں اپنے مردوں کو کفنيانا کرو۔
    زيادہ صاف ستھرا رہنے سے مراد يہ ہے کہ اگر اس پر ذرا سا داغ دھبہ بھي لگے تو فورا محسوس ہوجائے گا، اور آدمي فورا دھو کر صاف کرلے گا اور اگر کوئي رنگين کپڑا ہوگا تو اس پر داغ دھبہ جلد نظر نہ آسکے گا اور جلد دھونے کي طرف متوجہ نہ ہوسکے، گا، صيح بخاري ميں ہے کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم سفيد لباس پہنا کرتے تھے، يعني آپ نے خود بھي سفيد لباس پسند کيا اور امت کے مردوں کو بھي اسکي ترغيب دي۔

  2. #2
    Join Date
    Feb 2008
    Location
    manchester
    Age
    39
    Posts
    11,319
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    49 Thread(s)
    Rep Power
    21474864

    Default Re: ~ libaas kay adaab ~

    حضرت ابولاحوص کے والد اپنا ايک واقعہ بيان کرتے ہيں کہ بار نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں خدمت ميں حاضر ہوا، اس وقت ميرے جسم پر نہايت ہي گھٹيا او ر معمولي کپڑے تھے آپ نے پوچھا کيا تمہارے پاس مال و دولت ہے؟ ميں نے کہا جي ہاں، دريافت فرمايا کس طرح کا مال ہے؟
    ميں نے کہا خدا نے مجھے ہر قسم کا مال و دولت دے رکھا ہے، اونٹ بھي ہيں گائے بھي ہيں، بکرياں بھي ہيں، گھوڑے بھي ہيں، غلام بھي ہيں، گھوڑے بھي ہيں، آپ نے فرمايا کہ جب خدا نہ تمہيں مال و دولت سے نواز رکھا ہے تو اس کے فضل واحسان کا اثرتمہارے جسم پر ظاہر ہونا چاہئيے۔
    مطلب يہ ہے کہ جب خدا نے تمہيں سب کچھ دے رکھا ہے تو پھر تم نارواں اور فقيروں کي طرح اپنا حليہ کيوں بنا رکھا ہے؟ يہ تو خدا کي ناشکري ہے۔
    حضرت جابر کا بيان ہے کہ بار نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي غرض سے ہمارے يہاں تشريف لائے، تو آپ نے ايک آدمي کو ديکھا جو گردو غبار ميں اٹا ہوا تھا۔
    اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، آپ نے فرمايا کيا اس آدمي کے پاس کوئي کنگھا نہيں ہے جس سے يہ اپنے بالوں کو درست کرليتا؟ اور آپ نے ايک دوسرے آدمي کو ديکھا جس نے ميلے کپڑے پہن رکھے تھے۔
    آپ نے فرمايا کيا اس آدمي پاس وہ چيز يعني صابن وغيرہ نہيں جس سے يہ اپنے کپڑے دھو ليتا۔
    ايک شخص نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے کہا يا رسول اللہ ميں چاہتا ہو کہ ميرا لباس نہايت عمدہ ہو، سر ميں تيل لگا ہوا ہو، جوتے نفيس ہوں، اسي طرح اس نے بہت سي چيزوں کا ذکر کيا، يہاں تک اس نے کہا ميراجي چاہتا ہے
    کہ ميرا کوڑہ بھي نہايت عمدہ ہو، نبي صلي اللہ عليہ وسلم اسکي گفتگ سنتے رہے اور پھر فرمايا يہ ساري ہي باتيں پسنديدہ ہيں اور خدا اس لطيف ذوق جو اچھي نظر سے ديکھتا ہے۔
    حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہيں ميں نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے دريافت کيا يارسول اللہ کيا يہ تکبير اور غرور ہے کہ ميں نفيس اور عمدہ کپڑے پہنوں، آپ نے ارشاد فرمايا نہيں ، بلکہ يہ تو خوبصورتي ہے اور خدا اس خوبصورتي کو پسند فرماتا ہے۔
    حضرت عبداللہ بن عمر ہي کا بيان ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا نماز ميں دونوں کپڑے پہن ليا کرو، يعني پورے لباس سے آراستہ ہوجايا کرو، خدا زيادہ مستحق ہے کہ اس کي حضوري ميں آدمي اچھي طرح بن سنور کر جائے۔
    حضرت عبداللہ بن مسعود کا بيان ہے نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا جس دل ميں ذرہ بھر بھي غرور ہوگا وہ جنت ميں نہ جائے گا، ايک شخص نے کہا ہر شخص يہ چاہتا ہے کہ کے کپڑے عمدہ ہوں، اس کے جوتے عمدہ ہوں۔
    نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا خدا خود صاحب جمال کو پسندکرتا ہے، يعني عمدہ نفيس پہناوا غرور نہيں ہے، غرور تو دراصل يہ ہے کہ آدمي حق سے بے نيزي برتے اور لوگوں کو حقير و ذليل سمجھے۔
    پہننے اوڑھنے اور بنائو سنگار کرے ميں بھي ذوق اور سليقے کاپورا خيال رکھئيے گريباں کھولے کھلوے پھرنا، الٹے سيدھے بٹن لگانا، ايک پاينچہ چڑھانا اور ايک نيچا رکھنا اور ايک جوتا پہنے پہنے چلنا يا الجھے ہوئے بال رکھنا يہ سب ہي باتيں ذوق اور سليقے کے خلاف ہيں۔
    ہفتہ ميں ايک بار تو ضرور غسل کيجئے، جمعہ کے دن غسل کا اہتمام کيجئے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر جمعہ کي نماز ميں شرکت کيجئے، نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا امانت کي ادائيگي آدمي کو جنت ميں لے جاتي ہے صحابہ نے پوچھا يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم امانت سے کيا مراد؟ فرمايا ناپاکي سے پاک ہونے کيلئے غسل کرنا ہي اس سے بڑھ کر خدا نے کوئي امانت مقرر نہيں کي ہے پس جب آدمي کو نہانے کي حاجت ہوجائے تو غسل کرے۔
    ناپاکي کي حالت ميں نہ مسجد ميں جائيے اور نہ مسجد ميں سے گزرئيے اور اگر کوئي صورت ممکن ہي نہ ہو تو پھر تيمم کرکے مسجد ميں جائيں۔
    بالوں ميں تيل ڈالنے اور کنگھي کرنے کا بھي اہتمام کيجئے ڈاڑھي کے بڑھے ہوئے بے ڈھنگے بالوں کوقينچي سے درست کرليں، آنکھوں ميں سرمہ لگائيں، ناخن ترشوانے اور صاف رکھنے کا بھي اہتمام کيجئے اور سادگي اور اعتدال کے ساتھ مناسب زيب و زينت کا اہتمام کيجئے۔
    چھينکتے وقت منہ پر رومال رکھ ليجئے تاکہ کسي پر چھينٹ نہ پڑے، چھيکنے کے بعد الحمد اللہ خدا کا شکر ہے، کہيے سننے والا ير حمک اللہ خدا آپ پر رحم فرمائے، کہے اور اس کے جواب ميں يھديک اللہ خدا آپ کو ہدايت بخشے کہيے۔
    خوشبو کا کثرت سے استعمال کيجئے، نبي صلي اللہ عليہ وسلم خوشبو کو بہت پسند فرماتے تھے، آپ سوکر اٹھنے کے بعد جب ضروريات سے فارغ ہوتے تو خوشبو ضرور لگاتے۔

  3. #3
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    HEART
    Posts
    5,627
    Mentioned
    1 Post(s)
    Tagged
    96 Thread(s)
    Rep Power
    21474858

    Default Re: ~ libaas kay adaab ~

    Jazakallah bahut umda sharing

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •