سامنے منزل تھی اور پیچھے اس کی آواز
رکتا تو سفر جاتا، چلتا تو بچھڑ جاتا

منزل کی بھی حسرت تھی اور اس سے محبت بھی
اے دل بتا! میں اس وقت کدھر جاتا

مدت کا سفر بھی تھا اور برسوں کی شناسائی
رکتا تو بکھر جاتا، چلتا تو میں مرجاتا