دِل آنے کے ڈھنگ بھی نِرالے ہوتے ہیں۔ ذات پات، امیری غریبی، خوبصورتی بَد صورتی، حیثیّت دیکھے بغیر ہی کیوپڈ کا دیوتا اپنا نشانہ تاک کر تِیر چلا دیتا ہے اور پھر رومیو جولیٹ، لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، وامق عذرا، سوہنی مہینوال، ہیر رانجھا وغیرہ کی داستانیں جَنم لیتی ہیں۔ میں بھی اپنی اس عارضی زندگی میں کئی ایک واقعات کا چشم دِیدہ ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسے عشق و محبت کے قصے، واقعات لکھنے یا پھر دُہرانے کے قابل ہوتے ہیں کیونکہ ایسا کچھ ہر دَور، زمانے، شہر، گلیوں، محلّوں میں ہوتا رہتا ہے۔
دو مخالف جنس یعنی عورت و مرد، جہاں کہیں ہونگے وہاں ایسے کام تو ہوتے رہینگے۔ آنکھ، دِل، جذبات تو اپنا کام کرتے رہینگے۔ تعجّب و حیرت تو وہاں ہوتی ہے جہاں بظاہر دِل لگانے یا نظر کی چوٹ کھانے کی گنجائش سِرے سے ہوتی ہی نہیں۔ جیسے کہتے ہیں کہ گنجی نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا؟ لیکن کبھی کبھی اور کہیں کہیں یہ اَن ہونیاں بھی ہو کر رہتی ہیں۔ بلکہ بڑے دھڑلّے سے ہوتی ہیں۔ پھر سب کچھ دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ واقعی عشق اندھا ہوتا ہے۔
پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان