چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی
بولتی ہے تو بولتی جاتی ہے رنگت اس کی


سیڑھیاں چڑھتے اچانک ملی تھی مجھ کو
اس Ú©ÛŒ آواز میں موجود تھی Ø+یرت اس Ú©ÛŒ



ہاتھ Ú†Ú¾Ùˆ لو تو لرز جاتی ہے پتے Ú©ÛŒ طرØ+
وہی نا کردہ گناہوں پہ ندامت اس کی


کسی ٹھہری ہوئی ساعت Ú©ÛŒ طرØ+ مہر بہ لب
مجھ سے دیکھی نہیں جاتی یہ اذیت اس کی


آنکھ رکھتے ہو تو آنکھ Ú©ÛŒ تØ+ریر Ù¾Ú‘Ú¾Ùˆ
منہ سے اقرار نہ کرنا عادت ہے اس کی


وہ کبھی آنکھ بھی جھپکے تو لرز جاتا ہوں
مجھ کو اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے اس کی


وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی


بے طلب جینا بھی شہزاد طلب اس کی ہے
زندہ رہنے کی تمنا بھی شرارت اس کی