ویرانۂ وجود میں چلنا پڑا ہمیں
اپنے لہو کی آگ میں جلنا پڑا ہمیں
منزل بہت ہی دُور تھی، رستے تھے اجنبی
تاروں کے ساتھ ساتھ نکلنا پڑا ہمیں
سایا مثال آئے تھے اُس کی گلی میں ہم
ڈھلنے لگی جو رات تو ڈھلنا پڑا ہمیں
اپنے کہے سے وہ جو ہُوا منحرف ، تو پھر
اپنا لکھا ہُوا بھی بدلنا پڑا ہمیں
محرابِ جاں کی شمعیں بچانے کے واسطے
ہر رات کنجِ غم میں پگھلنا پڑا ہمیں
ہم چڑھتے سُورجوں کو سلامی نہ دے سکے
سَو دوپہر کی دُھوپ میں جلنا پڑا ہمیں
تھا ابتدا سے علم کہ ہے راستہ غلط
اور قافلے کے ساتھ بھی چلنا پڑا ہمیں
شانے پہ اِس ادا سے رکھا پھر کسی نے ہاتھ
دل مانتا نہ تھا پہ بہلنا پڑا ہمیں
امجد کسی طرف بھی سہارا نہ تھا کوئی
جب بھی گرے تو خود ہی سنبھلنا پڑا ہمیں
امجد اسلام امجد