اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے
اے درد ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے
ظلمت سے نور سے یہ الگ کائنات ہے
حیرت سرائے عشق میں دن ہے نہ رات ہے
جینا جو آگیا تو اجل بھی حیات ہے
اور یوں تو عمر خضر بھی کیا بےثبات ہے
کیوں انتھائے ہوش کو کہتے ہو بےخودی
خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے
توڑا ہے لامکاں کی حدوں کو بھی عشق نے
زندان عشق تیری تو کیا کائنات ہے