آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے حکمران ہیں ا ور غزوہ احزاب کے بعد ہر وقت خطرہ رہتا ہے -رومی مدینے پر حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں- ایسے ہی ایک دفعہ حملے کا خطرہ پیدا ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر بیٹھے اور مدینے کے گرد دور تک چکر لگا کر دیکھتے رہے کہ کہیں کوئی حملے کے آثار تو نہیں ہیں ....
ادھر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جب مدینے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی کا پتہ چلا تو وہ پریشان ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے- اتنے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپس آگئے اور فرمایا کہ میں سب دیکھ آیا ہوں لہٰذا

لَم تُراعُوا - لَم تُرا َ عُوا


فکر نہ کرو‘ خوف نہ کرو - حضرت انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ جو بخاری شریف میں مروی ہیں اس منظر کانقشہ یوں کھنچتے ہیں :

استَقبَلَہُمُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم علی فَرَ سٍ عُر یٍ مَا عَلَیہِ سَرج فِی عُنُقِہِ سَیف

”صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے گھوڑے پر تھے کہ جس کی پشت ننگی تھی ‘اس پر کوئی زین نہیں تھی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں تلوار تھی-“ ( بخاری)

دیکھئے!

کیسے بہادر ‘ دلیر اور جری تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ گلے میں تلوار لٹک رہی ہے اور اس قدر باخبر اور خطرہ سے نبٹنے اور جہاد کے لئے تیار ہیں کہ گھوڑا جیسے تھا ویسا ہی پکڑا‘ اس پر زین بھی نہیں رکھی اور گشت کرکے حالات سے باخبر ہو کر اکیلے واپس بھی آگئے ہیں-- پھر کیوں نہ زبان سے نکلے - صلی اللہ علیہ وسلم

اسی طرح صحیح بخاری کی روایت کے مطابق جنگ حنین میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سفید خچر پر سوار تھے اور دلیری کے ساتھ ہوازن و ثقیف قبیلے کے تیر اندازوں کے تیروں کی بارش میں ڈٹے ہوئے تھے اور اپنی تتر بتر فوج کو اکٹھا کر رہے تھے -

صحیح بخاری میں ہی حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ وہ کہتے ہیں:

مَا تَرَکَ النَّبیُّ صلی اللہ علیہ وسلّم اِلّاَ سَلَا حَہُ وَ بَغلَةً بَیضَا ئَ وَاَرضَاً بِخَیبَرَ جَعَلَہَا صَدَ قَةً

”( اس دنیا سے جاتے وقت ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہتھیار اور سفید خچر کے سوا کوئی ترکہ نہیں چھوڑا ‘خیبر میں کچھ زمین تھی -اسے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کردیا تھا- “ ( بخاری)

غور کیجئے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ہے تو وہ بھی جہادی اسلحہ اور جہادی سواری ہے
یعنی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کا چھوڑا ہوا سامان اور ترکہ بھی پکار پکار کر مسلمانوں کو یہ درس دے رہا ہے کہ جہاد نہ چھوڑنا اور اسلحہ کو اپنی زندگی کا اثاثہ بنانا-