خدا جب حسسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے
بچنا لاکھ چاہوں سامنے قیامت آ ہی جاتی ہے

ہے میرا حال کچھ ایسا شہر میں ان دنو
میرے گھر پوچھنے سے پہلے ہی شکایت آ ہی جاتی ہے

نہ و ہ پہلی سی باتیں ہے نہ و ہ پہلا سا اپنا پن
سنا ہے حسسن کے نکھرنے پے یہ عادت آ ہی جاتی ہے

کہی بار سوچا کر دو اس ظالم کو میں رسوا
اس فیصلے کے بیچ کمبخت شرافت آ ہی جاتی ہے