ÙˆÛ Ø§Ø³ Ø´Ûر Ú©ÛŒ مصرو٠ترین سڑک تھی جس پر قطارمیں بنی اونچی اونچی عمارتوں میں Ûزاروں لوگ کام کیا کرتے تھے۔ اسی سڑک Ú©Û’ ایک طر٠شÛر کا ایک معرو٠کالج موجود تھا جÛاں روز Ûزاروں Ú©ÛŒ تعدادمیں طلباء آتے جاتے رÛتے تھے۔اسی سڑک کےدوسرےکونے پر بنی ایک سÙپر مارکیٹ کےسامنے Ú©Û’ دونوں دروازے Ú©Ú¾Ù„Û’ رÛتے تھے اور روز شام میں ÙˆÛاں بڑی بڑی ٹوکریوں میں Ûر قسم Ú©Û’ Ù¾Ú¾Ù„ اور سبزیاں بÛت خوبصورتی سے سجائی جاتی تھیں۔ شام Ú©Û’ وقت دÙاتراور کالج سے نکلنے والے لوگ جنÛیں گھر Ù¾ÛÙ†Ú†Ù†Û’ Ú©ÛŒ جلدی Ûوتی تھی اس رش میں اضاÙÛ Ú©Ø±Ø¯ÛŒØªÛ’ تھے۔ روڈ پر بے انتÛا ٹریÙÚ© Ú©ÛŒ موجودگی Ú©Û’ باعث Ø²ÛŒØ§Ø¯Û ØªØ± لوگوں Ú©Ùˆ اس سÙپر مارکیٹ Ú©Û’ Ø¢Ú¯Û’ Ù„Ú¯Û’ جھمگٹے میں سے ÛÛŒ گزر کر جانا Ûوتا تھا۔ جن Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ Ù†Û Ø¨Ú¾ÛŒ لینا ÛÙˆ ÙˆÛ Ø¨Ú¾ÛŒ ان خوبصورتی سے سجائی گئی ٹوکریوں میں سے Ú©Ú†Ú¾ Ù†Û Ú©Ú†Ú¾ لینے Ú©Ú¾Ú‘Û’ Ûوجاتے تھے Û”
اس رش سے Ù†Ú©Ù„ کر میں ایک طر٠کھڑی Ûوگئی تھی، مجھے بھی گھر Ù¾ÛÙ†Ú†Ù†Û’ Ú©ÛŒ جلدی تھی مگر ÙˆÛاں سے گزرتے Ûوئے مجھے Ù…Ø+سوس Ûوا ØªÚ¾Ø§Ú©Û Ú©Ø³ÛŒ Ù†Û’ مجھے روکنے Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ تھی۔ میں Ù†Û’ رک کر آس پاس دیکھا ØŒ اس Ûجوم میں Ûر رنگ اور قوم Ú©Û’ لوگ نظر آئے مگر Ù†Û ØªÙˆ کوئی Ú†ÛØ±Û Ø´Ù†Ø§Ø³Ø§ لگا، Ù†Û ÛÛŒ کوئی اور نظر آیا جو میری Ø·Ø±Ù Ù…ØªÙˆØ¬Û ÛÙˆÛ” Ù¾ÛÙ„Û’ میں سمجھی میرا ÙˆÛÙ… تھا مگر اس سے Ù¾ÛÙ„Û’ Ú©Û’ میں Ø¯ÙˆØ¨Ø§Ø±Û Ú†Ù„ پڑتی مجھے اس Ûجوم میں ÙˆÛ Ø¨ÙˆÚ‘Ú¾ÛŒ عورت نظر آگئی تھی جو ایک طر٠بیٹھی سب Ú©Ùˆ جلدی جلدی اپنی Ù…Ø·Ù„ÙˆØ¨Û Ø§Ø´ÛŒØ§Ø¡ خریدکر ÙˆÛاں سے جاتے دیکھ رÛÛŒ تھی اوراب مجھے اپنی طر٠دیکھتا پاکر اس Ú©Û’ اداس Ú†Ûرے پر ایک ÛÙ„Ú©ÛŒ سی مسکراÛÙ¹ پھیل گئی تھی۔ پتا Ù†Ûیں کیوں مگر مجھے یقین ØªÚ¾Ø§Ú©Û Ø§Ø³ÛŒ Ù†Û’ مجھے روکنے Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ تھی۔ میں Ûمت کرکے ایک دÙØ¹Û Ù¾Ú¾Ø± اس رش کا Ø+ØµÛ Ø¨Ù† گئی اور لوگوں Ú©Û’ بیچ میں Ø±Ø§Ø³ØªÛ Ø¨Ù†Ø§Ú©Ø± اس عورت تک Ù¾ÛÙ†Ú† گئی تھی جس Ù†Û’ میلی سی سÙید رنگ Ú©ÛŒ جیکٹ Ù¾ÛÙ† رکھی تھی اور سر پر سÙید ÛÛŒ رنگ کا اسکار٠پÛنا Ûوا تھا۔ Ûاتھ میں ایک چھوٹا سا گتے کا ÚˆØ¨Ù‘Û Ù¾Ú©Ú‘Ø§ Ûوا تھا جس میں چند ایک ایک ڈالر Ú©Û’ نوٹ اور Ú©Ú†Ú¾ سکے موجود تھے۔ مجھے اس Ú©ÛŒ ÙˆÛاں موجودگی Ú©ÛŒ ÙˆØ¬Û Ù¾ØªØ§ Ú†Ù„ گئی اور Ù¾ÛÙ„Û’ میرے Ø°ÛÙ† میں ÛŒÛÛŒ آیا Ú©Û Ø§Ø³Û’ ÙˆÛاں بیٹھنے Ú©ÛŒ Ûرگز ضرورت Ù†Ûیں تھی۔ اس امیر ترین علاقے میں Ú©Ù… ÛÛŒ ایسا Ûوتا تھا Ú©Û Ú©ÙˆØ¦ÛŒ بھوکا سوئے۔ جÛاں گورنمنٹ Ú©Û’ Ø¹Ù„Ø§ÙˆÛ Ø³ÛŒÙ†Ú©Ú‘ÙˆÚº ÙلاØ+ÛŒ تنظیمیں موجود تھیں ÙˆÛاں کسی Ú©Ùˆ اس طرØ+ بھیک مانگنے Ú©ÛŒ کیا ضرورت تھی؟ میں Ù†Û’ Ù¾ÛÙ„ÛŒ دÙØ¹Û ÙˆÛاں کسی Ú©Ùˆ بھیک مانگتے دیکھا تھا۔ مجھے ÙˆÛاں خاموش کھڑا دیکھ کر اس عورت Ù†Û’ مجھ سے Ú©Ú†Ú¾ Ú©Ûا تھا مگر میں اس Ú©ÛŒ بات سمجھ Ù†Ûیں سکی Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û Ø´Ø§ÛŒØ¯ ÙˆÛ Ùلسطینی تھی اور انگلش Ù†Ûیں بول سکتی تھی۔ مگر اس Ú©ÛŒ پوری بات میں مجھے صر٠ایک Ù„Ùظ “اللÛ†سمجھ آیا تھا اور اس Ú©Û’ بعد مجھے Ú©Ú†Ú¾ بھی سوچنے Ú©ÛŒ ضرورت Ù†Ûیں Ù¾Ú‘ÛŒ Û” اپنے کوٹ Ú©ÛŒ جیب میں Ûاتھ ڈال کر میں Ù†Û’ Ú©Ú†Ú¾ پیسے نکالے ،مگر اس عورت Ú©ÛŒ طر٠Ûاتھ بڑھانا مجھے مشکل ترین لگا تھا۔ اس Ú©ÛŒ طر٠Ûاتھ بڑھاتے Ûوئے مجھے بÛت تکلی٠Ûوئی تھی۔ Û” ۔اس Ú©ÛŒ بے بسی پر، اس Ú©ÛŒ پریشانی پر اور اس Ú©ÛŒ ÙˆÛاں موجودگی پر۔ اتنی سردی میں ÙˆÛاں بیٹھ کر، اپنی انا مار کر دوسروں Ú©Û’ Ø¢Ú¯Û’ Ûاتھ پھیلانا کتنا ØªÚ©Ù„ÛŒÙ Ø¯Û Ûوگا شاید ÛÙ… Ø§Ù†Ø¯Ø§Ø²Û Ù†Ûیں کرسکتے۔میں Ù†Û’ Ú©Ú†Ú¾ پیسےاس Ú©Û’ Ú†Ûرے Ú©ÛŒ طر٠دیکھے بغیر اس Ú©Û’ Ûاتھ میں پکڑائے اور واپس پلٹ گئی تھی۔میں اس اداس Ú†Ûرے پر شرمندگی پھیلتے Ûوئے Ù†Ûیں دیکھنا چاÛتی تھی۔ میں ایک دÙØ¹Û Ù¾Ú¾Ø± اس رش کا Ø+ØµÛ Ø¨Ù† گئی مگرکچھ دور تک اس بوڑھی عورت Ú©ÛŒ آواز آتی رÛÛŒ تھی۔ اس Ú©ÛŒ بات سمجھے بغیر بھی مجھے Ø§Ù†Ø¯Ø§Ø²Û ØªÚ¾Ø§ Ú©Û ÙˆÛ ÛŒÙ‚ÛŒÙ†Ø§Ù‹ مجھے دعائیں دے رÛÛŒ تھی۔ ÙˆÛ Ø¯Ø¹Ø§Ø¦ÛŒÚº جو Ø§Ù„Ù„Û ØªØ¹Ø§Ù„ÛŒÙ° Ù†Û’ میرے نصیب میں Ù„Ú©Ú¾ÛŒ تھیں، ان پیسوں Ú©Ùˆ دینے Ú©Û’ بعد جو Ø§Ù„Ù„Û ØªØ¹Ø§Ù„ÛŒÙ° Ù†Û’ اس Ú©Û’ نصیب سے مجھے دیئے تھے۔
مجھے ÙˆÛ Ø¯ÙˆØ¨Ø§Ø±Û Ú©Ø¨Ú¾ÛŒ ÙˆÛاں نظر Ù†Ûیں آئی مگراتنے دن گزرجانے Ú©Û’ بعد بھی میں ان آنکھوں Ú©ÛŒ اداسی اورچÛرے پر پھیلی بے بسی Ù†Ûیں بھولی۔ لیکن ایسے کتنے ÛÛŒ لوگ Ûمیں پاکستان Ú©ÛŒ سڑکوں پر پھرتے نظر آتے Ûیں۔ سال 2006 میں پاکستان Ú©ÛŒ آبادی کا تقریباً چوتھائی Ø+ØµÛ ØºØ±Ø¨Øª Ú©Û’ زمرے میں آتا تھا اور گزرتے برسوں میں ÛŒÛ Ú©Ù… Ûونے Ú©Û’ بجائے بڑھتا جارÛا ÛÛ’Û” جÛاںسال 2008 میں Ú©ÙÙ„ آبادی میں سے 17 Ø§Ø¹Ø´Ø§Ø±ÛŒÛ 2 Ùیصد لوگ غربت Ú©ÛŒ انتÛائی سطØ+ سےبھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبورتھے ÙˆÛاں Ûر Ú†ÙˆÚ© پر مانگنے والوں Ú©ÛŒ بھیڑ تعجب Ú©ÛŒ بات Ù†Ûیں۔ ÛÙ… Ûر ٹریÙÚ© سگنل پر انÛیں دیکھنے Ú©Û’ اتنے عادی ÛÙˆÚ†Ú©Û’ Ûیں Ú©Û Ûمیں ان Ú©ÛŒ ÙˆÛاں موجودگی Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ù…Ø+سوس بھی Ù†Ûیں Ûوتی۔
میں اکثر سوچتی ÛÙˆÚº Ú©Û Ø§Ù„Ù„Û ØªØ¹Ø§Ù„ÛŒÙ° Ù†Û’ Ûمیں بھی تو بÛت Ú©Ú†Ú¾ ایسا دے رکھا ÛÛ’ جس Ú©Û’ پتا Ù†Ûیں ÛÙ… قابل Ûیں بھی یا Ù†Ûیں۔ بÛت سی چیزیں ÙˆÛ Ø¨Ù† مانگے ÛÛŒ Ûماری جھولی میں ڈال دیتا ÛÛ’ اور ÛÙ… اسے Ø+Ù‚ سمجھ کر وصول کرتے Ûیں۔ لیکن ÛÙ… کسی Ú©ÛŒ مددکرنے سے Ù¾ÛÙ„Û’ÛŒÛ Ø³ÙˆÚ†Ù†Û’ لگتے Ûیں Ú©Û Ø§Ù† Ú©ÛŒ ÙˆÛاں موجودگی ضرور ان Ú©ÛŒ غلطیوں کا Ù†ØªÛŒØ¬Û Ûے۔اگر Ø§Ù„Ù„Û ØªØ¹Ø§Ù„ÛŒÙ° بھی Ûمارے ساتھ Ø+ساب کتاب کرنے Ù„Ú¯Û’ Ú©Û Ûمیں اس Ú©Û’ Ø¢Ú¯Û’ Ûاتھ پھیلانےسے Ù¾ÛÙ„Û’ کیا کرنا چاÛیے یا Ú©Ûاں سے مانگناچاÛیے تو شاید Ûمارے Ûاتھوں میں بھی ایک گتے کا ÚˆØ¨Ù‘Û Ø±Û Ø¬Ø§Ø¦Û’ جس میں موجود چند ڈالرز اس بات Ú©ÛŒ گواÛÛŒ دیں Ú¯Û’ Ú©Û Ø¯ÛŒÙ†Û’ والےکو ÛÙ… Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ù…Ø³ØªØ+Ù‚ Ù†Ûیں Ù„Ú¯Û’Û”