عرصہ ہوا ایک ترک افسانہ پڑھا تھا یہ دراصل میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتل گھرانے Ú©ÛŒ کہانی تھی جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر Ú©Û’ سربراہ Ú©Û’ علاج معالجے پر Ù„Ú¯ Ú†Ú©ÛŒ تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ آخر اسی Ø+الت میں ایک دن بچوں Ú©Ùˆ یتیم کر گیا۔ رواج Ú©Û’ مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ خانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں Ù„Ú¯ Ú†Ú©Û’ تھے، کسی Ù†Û’ بھی اس گھر Ú©ÛŒ طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر Ù†Ú©Ù„ کر سامنے والے سفید مکان Ú©ÛŒ چمنی سے نکلنے والے دھویں Ú©Ùˆ دیکھتے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان Ú©Û’ لیے کھانا تیار ہو رہا ہے۔ جب بھی قدموں Ú©ÛŒ چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے Ú©ÛŒ تھالی اٹھائے Ø¢ رہا ہے مگر کسی Ù†Û’ بھی ان Ú©Û’ دروازے پر دستک نہ دی۔

ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس Ù†Û’ گھر سے Ú©Ú†Ú¾ روٹی Ú©Û’ سوکھے Ù¹Ú©Ú‘Û’ ڈھونڈھ نکالے، ان Ù¹Ú©Ú‘ÙˆÚº سے بچوں Ú©Ùˆ بہلا پھسلا کر سلا دیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے Ú©Ú¾Ú‘ÛŒ تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر Ú©ÛŒ "تلاش" Ú©Û’ بعد دو چار چیزیں Ù†Ú©Ù„ آئیں جنھیں کباڑیے Ú©Ùˆ فروخت کر Ú©Û’ دو چار وقت Ú©Û’ کھانے کا انتظام ہو گیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہو گئے تو پھر جان Ú©Û’ لالے Ù¾Ú‘ گئے۔ بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا۔ ساتویں روز بیوہ ماں خود Ú©Ùˆ بڑی سی چادر میں لپیٹ کر Ù…Ø+Ù„Û’ Ú©ÛŒ پرچوں Ú©ÛŒ دکان Ù¾Ú‘ جا Ú©Ú¾Ú‘ÛŒ ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہو کر اس Ú©ÛŒ طرف متوجہ ہوا، خاتون Ù†Û’ ادھار پر Ú©Ú†Ú¾ راشن مانگا تو دکان دار Ù†Û’ نا صرف صاف انکار کر دیا بلکہ دو چار باتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔

ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اور اوپر سے مسلسل فاقہ، آٹھ سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بکھر میں مبتلا ہو کر چارپائی پر پڑ گیا۔ دوا دارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ نہی تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جب کہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبا رہی تھی۔ اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی

"اماں بھائی کب مرے گا؟"

ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا "میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟"
بچی معصومیت سے بولی

"ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں!"

اگر ہم اپنے پاس پڑوس میں نظر دوڑائیں تو اس طرØ+ Ú©ÛŒ ایک Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کئی کہانیاں بکھری نظر آئیں گی۔ بہت معذرت Ú©Û’ ساتھ کہہ رہا ہوں ہمارا معاشرہ مردہ پرست ہو چکا ہے۔ زندگی میں کوئی نہی پوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی Ú¯Ú¾ÛŒ لگا دیا جاتا ہے تا کہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی Ú¯Ú¾ÛŒ کھاتے کھاتے مرے ہیں۔ غالبا منٹو Ù†Û’ لکھا ہے کہ ایک بستی میں کوئی بھوکا شخص Ø¢ گیا، لوگوں سے Ú©Ú†Ú¾ کھانے Ú©Ùˆ مانگتا رہا مگر کسی Ù†Û’ Ú©Ú†Ú¾ نہی دیا۔ بیچارہ رات Ú©Ùˆ ایک دکان Ú©Û’ باہر فٹ پتہ پر Ù¾Ú‘ گیا۔ صبØ+ Ø¢ کر لوگوں Ù†Û’ دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ اب "اہل ایمان" کا "جذبہ ایمانی" بیدار ہوا، بازار میں چندہ کیا گیا اور مرØ+وم Ú©Û’ ایصال ثواب Ú©Û’ لیے دیگیں چڑھا دی گئیں، یہ منظر دیکھ کر ایک صاØ+ب Ù†Û’ کہا "ظالمو! اب دیگیں چڑھا رہے ہو، اسے چند لقمے دے دیتے تھ یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نا مرتا"Û”

Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ دنوں ایک تاجر Ù†Û’ ایک مزار پر دس لاکھ روپے مالیت Ú©ÛŒ چادر چڑھائی، جب کہ مزار Ú©Û’ سامنے Ú©Û’ Ù…Ø+Ù„Û’ میں درجنوں ایسے بچے گھوم رہے ہوتے ہیں جنہوں Ù†Û’ قمیض پہنی ہوتی ہے تو شلوار ندارد اور شلوار ہے تو قمیض نہی۔ Ø+ضرت مجدد الف ثانی فرمایا کرتے تھے کہ تم جو چادریں قبر پر چڑھاتے ہو اس Ú©Û’ زندہ لوگ زیادہ Ø+قدار ہیں۔ ایک شخص رکے ہوئے بقایاجات Ú©Û’ لیے بیوی بچوں Ú©Û’ ساتھ مظاہرے کرتا رہا، Ø+کومت ٹس سے مس نا ہوئی، تنگ Ø¢ کر اس Ù†Û’ خود سوزی کر Ù„ÛŒ تو دوسرے ہی روز ساری رقم ادا کر دی گئی۔ اسی طرØ+ ایک صاØ+ب Ú©Û’ مکان Ù¾Ú‘ قبضہ ہو گیا، بڑی بھاگ دوڑ Ú©ÛŒ مگر کوئی سننے Ú©Ùˆ تیار نہی ہوا، اسی دوران دفتر Ú©ÛŒ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، پولیس Ù†Û’ پھرتی دکھائی اور دوسرے ہی دن مکان سے قبضہ ختم کروا دیا۔ فائدہ؟ کیا اب اس مکان میں اس کا ہمزاد Ø¢ کر رہے گا؟