Ø+سن Ú©Ùˆ عشق Ú©Û’ عنوان میں رکھا جائے
موج۔ بے تاب کو طوفان میں رکھا جائے

مجھکو آرام جو دینا ہے تو اک کام کرو

دل کہ زخمی ہے نمکدان رکھا جائے

تجھ کو تصویر کیا دل کے نہاں خانے میں

اور اب کیا دل۔ نادان میں رکھا جائے

پھول گلزاروں سے لانے کی ضرورت تو نہیں

اس کی تصویر کو گلدان میں رکھا

ہے بہت کچھ کہ ابھی پے سروسامانی ہے

یہ اثاثہ سر و سامان میں رکھا جائے

کیا پتہ کل ملے دشمن کی صفوں میں مختار

دوستو ! یہ بھی تو امکان میں رکھا جائے