اہل معرفت ----
قیام دہلی کے آخری دور میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ ﷲ علیہ کو اپنے وضو کی خدمت پر مامور فرما دیا تھا۔ ایک دن عجیب اتفاق ہوا کہ سردی کا موسم تھا اور رات کو آگ ختم ہوگئی تھی۔ نماز فجر میں پیر و مرشد کے وضو کے لئے پانی گرم کرنا تھا اس لئے بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ آگ کی تلاش میں خانقاہ سے نکل کر بستی کی طرف روانہ ہوگئے۔
یہ سوچ کر دروازے دروازے پھرتے رہے کہ کہیں کسی مکان میں کوئی جاگ رہا ہو تو آگ کا سوال کریں۔ خوش قسمتی سے بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ کو ایک گھر میں کسی کے چلنے کی آہٹ محسوس ہوئی۔ آپ تیزی سے آگے بڑھے اور دروازے پر دستک دی۔ مکان کی مالکہ ایک جوان اور شریر عورت تھی۔ اس نے پردے سے جھانک کر دیکھا تو اپنے دروازے پر ایک خوبصورت نوجوان کو کھڑے دیکھا۔
’’تمہیں کسی سے ملنا ہے؟‘‘ عورت نے شوخ لہجے میں پوچھا
حضرت بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ عورت کے لہجے کی شرارت کو محسوس کرکے لرز گئے مگر مجبوراً آپ کو جواب دینا پڑا ’’مجھے کسی سے ملاقات نہیں کرنی ہے خاتون! میں تو ایک ضرورت مند شخص ہوں اور آپ کے دروازے پر آگ لینے کے لئے آیا ہوں‘‘
عورت آپ کے مزاج اور مسلک سے واقف نہیں تھی‘ اس لئے دل بستگی کی باتیں کرتی رہی۔
حضرت بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ نے اپنا سوال دہرایا اور درخواست کی کہ انہیں تھوڑی سی آگ دے دی جائے۔
عورت شرارت سے باز نہیں آئی‘ کہنے لگی کہ آگ بلا معاوضہ نہیں دی جاتی۔
حضرت بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ نے معاوضہ دریافت کیا تو بڑی بے باکی سے بولی ’’اپنی ایک آنکھ نکال کر دے دو اور آگ لے جائو‘‘
وقت گزرتا جارہا تھا اور بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ کو یہ فکر پریشان کررہی تھی کہ اگر آگ نہیں ملی تو حضرت شیخ وضو کس طرح کریں گے؟ اور اس شریر عورت کا یہ حال تھا کہ آگ کے بدلے میں آنکھ طلب کررہی تھی۔
بالاخر آپ نے مجبور ہوکر اس فتنہ گر عورت سے کہا۔
’’میں آنکھ تو نہیں نکال سکتا مگر اسے پھوڑ سکتا ہوں۔ آپ آگ لے کر آئیں۔ بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ نے اتنا کہا اور آنکھ کے حلقے میں اپنی انگلیاں پیوست کردیں۔ عورت ابھی تک اپنی شرارت کو ایک دلچسپ کھیل سمجھ رہی تھی
مگر جب اس نے بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ کی اضطراری حالت دیکھی تو خوفزدہ ہوکر کہنے لگی۔
’’تم آنکھ رہنے دو۔ میں آگ لے کر آتی ہوں‘‘
عورت اپنی شرارت اور ضد سے باز آگئی مگر بہت دیر ہوچکی تھی۔ اسے پتا بھی نہ چل سکا کہ اس کشمکش میں بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ کی آنکھ بری طرح زخمی ہوگئی ہے پھر جب وہ آگ لے کر آئی تو بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ نے اس کاشکریہ ادا کیا اور تیزرفتاری کے ساتھ خانقاہ کی جانب روانہ ہوگئے۔
حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ ﷲ علیہ نے بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ کی طرف دیکھا تو آپ کی ایک آنکھ پر رومال بندھا ہوا تھا۔
’’بابا! تمہاری آنکھ کو کیا ہوا؟‘‘ حضرت قطب رحمتہ ﷲ علیہ نے وضو کرتے ہوئے اپنے مرید خاص سے دریافت کیا۔
’’کچھ نہیں شیخ محترم! آنکھ آئی ہے‘‘ حضرت بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ نے صورتحال کو چھپاتے ہوئے عرض کیا۔
حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ ﷲ علیہ مسکرائے اور پھر فرمایا ’’بابا! اگر آنکھ آئی ہے تو کھول دو۔
پیرومرشد کا حکم سن کر حضرت بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ نے زخمی آنکھ سے رومال ہٹادیا۔ اس وقت آپ کو شدید حیرت ہوئی کہ آنکھ میں برائے نام بھی تکلیف باقی نہیں تھی۔
حضرت قطب رحمتہ ﷲ علیہ کی اس کرامت کا آج بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ کی نسل کے جتنے لوگ بھی پاک و ہند میں موجود ہیں‘ ان کی دائیں آنکھ چھوٹی اور بائیں قدرے بڑی ہوتی ہے۔ یہ فرق کسی دوسرے خاندان کے لوگوں میں بھی پایا جاسکتا ہے مگر ہم اسے اتفاق ہی کہیں گے‘ اس کے برعکس جس قدر بھی فریدی نظر آتے ہیں ان کی آنکھوں میں یہ علامت یقینی طور پر پائی جاتی ہے۔