حُضور داتا گنج بخش علی بن عثمان الہجویری رحمتہ الله علیہ امام زین العابدین کی شان بیان کرتے ہیں۔۔۔
اور ان آئمہ اطہار میں سے، وارثِ نبوت،چراغ امت،سید مظلوم امام مرحوم،زین عباد،شمع اوتاد سیدنا ابوالحسن علی المعروف زین العابدین بن امام حسین بن علی بن ابی طالب رضی الله عنہ ہیں۔۔ آپ اپنے زمانے میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔اور کشفِ حقائق اور نطق دقائق میں آپ بہت مشہور تھے۔کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ کون شخص دنیا اور آخرت میں سب سے زیادہ نیک بخت و سعید ہے۔ فرمایا۔۔۔۔
ترجمہ:یعنی وہ شخص جب راضی (خوش) ہو تو اس کی رضا اُسے باطل پر آمادہ نہ کرے اور جب ناراض ہو تو اس کی ناراضگی اسے حق سے نہ نکالے۔ یہ وصف راست (سچے) لوگوں کے اوصاف و کمال میں سے ہے۔ اس لئے کہ باطل سے راضی ہونا بھی باطل ہےاور غصے کی حالت میں حق کو چھوڑنا بھی باطل ھے۔ مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ باطل میں مبتلا ہو۔ نیز آپ سے یہ بھی منقول ہے کہ جب امام حسین اپنے اہل و عیال اور رفقاء سمیت رضوان الله تعالٰی علیھم اجمعین کربلا میں شہید کر دئے گئے اور آپ کے سوا کوئی نہ بچا کہ مستورات حرم کا محافظ و نگہبان ہو۔ آپ بھی اسقدر بیمار و علیل تھے۔ امیر المومنین سیدنا امام حسین آپ کو علی اصغر کے نام سے یاد فرماتے تھے۔ اور جبکہ ان سب کو بغیر کجاوے کے اونٹوں کی ننگی پیٹھ پر سوار کر کے دمشق لے جایا گیا اور یزید بن امیر معاویہ کے دربار میں کسی نے آپ سے پوچھا۔۔۔۔۔
ترجمہ: یعنی کسی نے پوچھا اے علی۔۔ (زین العابدین) اے رحمت کے گھر والو۔ تم نے کیسے صبح کی۔۔۔۔؟
آپ نے جواب میں فرمایا ھم نے اپنی قوم میں اس طرح صبح کی جس طرح حضرت موسٰی علیہ السلام کی قوم نے فرعونیوں میں صبح کی تھی کہ فرعونیوں نے ان کے بچوں کو قتل کیا اور ان کی عورتوں اور بچیوں کو زندہ رکھا لہٰذا ھم نہیں جانتے کہ اس امتحان گاہ میں ھماری صبح، ھماری شام کے مقابلے میں کیا حقیقت رکھے گی۔۔۔۔۔۔۔ ھم خُدا کی نعمتوں پر شُکر بجا لاتے ہیں اور اس کی بلا و مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
حکایت: حکایتوں میں حکایت ھے کہ ایک سال ہشام بن عبد الملک مروان حج کے لئے آیا، وہ طواف خانہ کعبہ میں مشغول تھا اور چاہتا تھا کہ حجر اسود کو بوسہ دے لیکن لوگوں کے اژدہام میں راہ نہ ملتی تھی۔ اسی وقت وہ ممبر پر کھڑا ھوا اور خطبہ دینے لگا۔ اسی اثناء میں حضرت زین العابدین علی بن حسین بن علی رضی الله عنہ
مسجدِ حرام می اس شان سے داخل ہوئے کہ آپ کا چہرہ تاباں، آپ کے رُخسار مُنور، اور لباس آپ کا معطر تھا۔ آپ نے طواف شُروع کیا جب آپ حجر اسود تک پہنچے تو لوگوں نے آپ کے احترام و تعظیم میں حجر اسود کے گرد ہٹ کر کھڑے ھو گئے تا کہ آپ حجر اسود کو بوسہ دے سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شامیوں نے آپ کی جب یہ شان و شوکت دیکھی تو ہشام سے کہنے لگے۔ اے امیرُالمومنین۔۔! تُم کو تو لوگوں نے حجر اسود کے بوسہ کے لئے راہ نہ دی۔۔حالانکہ کہ تُم امیرُالمومنین (خلیفہ) ھو، یہ خوبرُو نوجوان جب آیا تو سب لوگ حضرِ اسود سے ہٹ گئے اور ان کے لئے جگہ خالی کردی۔ ہشام نے جواب دیا میں اس کو نہیں جانتا، اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ شامی لوگ انہیں نہ پہچانیں اور ان کی پیروی میں کہیں ان کو امارت کا شوق نہ پیدا ھوجائے۔ فرذوق شاعر اس وقت وہاں کھڑا تھا اس نے کہا میں اِنہیں خوب جانتا ھوں۔ شامی لوگ کہنے لگے اے ابو فراش! ھمیں بتائیے یہ کون ہیں؟ بڑی ہیبت و دبدبہ والا نوجوان جو ہھم نے دیکھا ہے۔ فرذوق شاعر نے کہا تم کان کھول کر سنو تاکہ میں ان کا حال اور ان کےوصف و نسب کو بیان کروں۔ اس کے بعد فی البدیہ یو قصیدہ موزوں کرکے پڑھا۔ (قصیدہ بہت طویل ہے یہاں چند اشعار نقل کئے جارہے ہیں)
ترجمہ: یہ وہ شخص ہے جس کے نشانِ قدم بطحا والے جانتے ہیں اور خانہ کعبہ، حل و حرم اسے جانتے ہیں۔
یہ شخص الله کے سارے بندوں میں سب سے بہتر بندے کا فرزند ہے۔۔۔۔ یہ پرہیزگار، پاکیزہ نیکی میں مشور شخص ہے۔
یہ بِنتِ رسول فاطمہ الزہراء کے فرزند کا فرزند ہے اگر تم ناواقف ھو۔۔۔۔۔۔ ان کے نانا پر الله تعالٰی نے سلسلہء نبوت ختم فرمایا۔
ان کی منور پیشانی سے نورِ ھدایت اس طرح جلوہ فگن ہے جس طرح آفتاب کی روشنی سے تاریکیاں جاتی رہتی ہیں۔
یہ اپنی آنکھیں تو حیا سے نیچی رکھتا ہے اور لوگوں کی آنکھیں دبدبہ سے نیچی ہیں۔۔۔۔۔ اسی لئے رعب و دبدبہ ہٹانے کے لئے ہنس کے کلام کرتا ہے۔۔
جب کوئی قریشی انہیں دیکھتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ ان کی بزرگیوں پر تمام بزرگیاں ختم ہیں۔
عزت و منزلت کی ایسی بلندی پر فائز ہے جہاں عرب و عجم کے مسلمان ان سے فخر نسبت پاتے ہیں۔
انکے نانا کی فضیلت سب نبیوں کی فضیلتوں سے زیادہ ہے ان کی فضیلت سب امتوں سے زیادہ ہے۔
الخ
( کشف المحجوب ، صفحہ ١٣٥،١٣٦،١٣٧)