حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے اَحباب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ لوگ ایک مقتول (یعنی قَتْل کئے ہوئے مُردے )کو گھسیٹتے ہوئے وہاں سے گزرے ۔ سیِّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب مقتول کی شَکْل دیکھی تو ایک دم بے ہوش ہوکر زمین پر تشریف لے آئے ۔ جب ہوش آیا ، کسی نے ماجرا دریافْتْ کیا تو فرمایا، یہ مقتول کسی وَقْت بَہُت بڑا
عابِد و زاھِد تھا۔ لوگوں کا تجسُّس بڑھا ۔ عرض کیا، یا سیِّدی ! ہمیں تفصیلی واقِعہ ارشاد فرمایئے! فرمایا، یہ عابِد ایک روز نَماز کیلئے گھر سے چلا تو راستے میں ایک عیسائی لڑکی پر نظر پڑ گئی اور ایک دم اُس کے دل میں عِشْق کی آگ شُعلہ زَن ہوئی اور اُس کے فِتنے میں پڑ گیا، اُس سے شادی کا مُطالَبہ کیا، اُس نے شَرْط رکھی کہ عیسائی ہو جاؤ۔ کچھ عرصہ عابِد نے ضَبْط کیا، مگر آخِرِ کارشَہوت کے ہاتھوں لاچار ہو کرا سلام چھوڑ کر نَصرانی بن گیا۔ جب اُس نے لڑکی کو آکر خبر د ی تو وہ بپھر گئی اور نَفْرِین (نَفْ۔ رِیْ۔نْ)کرتے ہوئے کہا، او بد نصیب! تیرے اندر کوئی بھلائی نہیں ، تو نے اپنے دین سے وَفا نہیں کی تو کسی اور کے ساتھ کیا وفا کریگا! بد بخْت! تُو نے شَہْوت سے بد مست ہو کر عمر بھر کی عبادت و ریاضَت بلکہ اپنا دین تک داؤ پر لگایادیا! لے سُن! تُو اسلام سے پھر کر مُرتَدّ ہو چُکا ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں عیسائیت کو چھوڑ کر مسلمان ہو چکی ہوں ۔ یہ کہہ کر اُس نے سُورَۃُالْاِخْلاص کی تِلاوت کی ، کسی سننے والے نے حیرت سے پوچھا، یہ تجھے کیسے یاد ہو گئی؟کہنے لگی، دراَصل بات یہ ہے کہ خواب کے اندر میں جہنَّم میں داخِل ہونے لگی، اچانک ایک صاحِب وہاں آ گئے اور مجھے تسلّی دیتے ہوئے کہنے لگے ، ڈرو مت،تمہاری جگہ اُسی شخص کو فِدیَہ بنا دیا گیا ہے۔ اتنے میں یہ عاشقِ ناشادو نامُراد میری جگہ جہنَّم میں جانے کیلئے آگیا۔ پھر وہ صاحِب مجھے جنّت میں لے گئے .
اُنہوں نے مجھے سُورَۃُالْاِخْلاص یاد کروائی ، جب میں بیدار ہوئی تو یہ مجھے یاد ہو چکی تھی۔
حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا، وہ خوش نصیب لڑکی تو مسلمان ہو گئی لیکن بد نصیب عابِد شَہْوت سے مَغلُوب ہو کر مُرتَدّ ہونے کے بعد آج قتل کر دیا گیا۔
ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عافِیت کا سُوال کرتے ہیں۔
(بَحْرُ الدُّ مُو ع الفصْل السّادِس عشرص 74)