حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمتہ الله علیہ
ایک مرتبہ سلطان محمود غزنوی نے ایاز سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے اپنا لباس پہنا کر اپنی جگہ بٹھادونگا -
اور تیرا لباس پہن کر خود غلام کی جگہ لے لونگا -
چانچہ جس وقت سلطان محمود نے حضرت ابو الحسن خرقانی سے ملاقات کی نیت سے خرقان پہنچا تو قاصد سے یہ کہا کہ تو حضرت ابو الحسن سے یہ کہ دینا کہ میں صرف آپ سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا ہوں لہٰذا آپ زحمت فرما کر میرے خیمے تک تشریف لے آئیں -
اور اگر وہ آنے سے انکار کر دیں تو یہ آیت تلاوت کر دینا
ترجمہ " یعنی الله اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ اپنی قوم کے حاکم کی بھی اطاعت کرتے رہو "
چنانچہ قاصد نے جب آپ کو پیغام پہنچایا تو آپ نے معذرت طلب کی
جس پر قاصد نے مذکورہ بالا آیت تلاوت کی -
آپ نے جواب دیا کہ محمود سے کہ دینا میں تو اطیعواللہ میں ایسا غرق ہوا ہوں کہ اطیعوالرسول میں بھی ندامت محسوس کرتا ہوں ایسی حالت میں تو اولی الامر منکم کا ذکر ہی کیا ہے -
یہ قول جس وقت قاصد نے محمود غزنوی کو سنایا تو اس نے کہا میں انھیں معمولی قسم کا صوفی تصور کرتا تھا -
لیکن معلوم ہوا یہ تو بہت ہی کامل بزرگ ہیں -
لہٰذا ہم خود ہی ان کی زیارت کے لئے حاضر ہونگے -
اور اس وقت محمود نے ایاز کا لباس پہنا اور دس کنیزوں کو مردانہ لباس پہنا کر ایاز کو اپنا لباس پہنایا -
اور خود بطور غلام کے ان دس کنیزوں میں شامل ہو کر ملاقات کرنے کے لئے پہنچ گیا -
گو آپ نے اس کے سلام کا جواب تو دے دیا لیکن تعظیم کے لئے کھڑے نہیں ہوئے ، اور محمود جو غلام کے لباس میں ملبوس تھا اس کی جانب قطعی توجہ نہیں دی -
محمود نے کہا یہ دام فریب تو ایسا نہیں کہ جس میں آپ جیسے شہباز پھنس سکیں -
پھر آپ نے محمود کا ہاتھ تھام کر فرمایا پہلے ان نا محرموں کو باہر نکل دو پھر مجھ سے گفتگو کرنا -
چنانچہ محمود کے اشارے پر تمام کنیزیں باہر چلی گئیں اور محمود نے آپ سے فرمائش کی کہ حضرت با یزید بسطامی کا کوئی واقعہ بیان فرمائیے -
آپ نے فرمایا کہ حضرت بایزید کا قول یہ تھا کہ جس نے میری زیارت کر لی اس کو بد بختی سے نجات مل گئی -
اس پر محمود نے پوچھا کہ کیا ان کا درجہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بھی زیادہ بلند تھا ؟
اس لئے کہ حضور کو ابو جھل و ابولہب جیسے منکرین نے دیکھا پھر بھی ان کی بدبختی دور نہ ہوسکی -
آپ نے فرمایا کہ اے محمود ! ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی ولادت میں تصرف نہ کرو کیونکہ حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کو خلفائے اربع اور دیگر صحابہ کے کسی نے نہیں دیکھا جس کی دلیل یہ آیت مبارکہ ہے
" وتراھم ینظرون الیک وہم لا یبصرون "
ترجمہ : یعنی اے نبی صلی الله علیہ وسلم آپ ان کو دیکھتے ہیں ، جو آپ کی جانب نظر کرتے ہیں - حالانکہ وہ آپ کو نہیں دیکھ سکتے -
یہ سن کر محمود بہت محظوظ ہوا -
از حضرت شیخ فرید الدین عطار تذکرۃ الاولیاء صفحہ ٣١٥