گئے موسم میں جو کِھلتے تھے گلابوں Ú©ÛŒ طرØ+
دل پہ اُتریں Ú¯Û’ وہی خواب عذابوں Ú©ÛŒ طرØ+

راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل Ú†Ú©Û’ ہیں مرے خیمے‘مرے خوابوں Ú©ÛŒ طرØ+

ساعتِ دید کے عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمØ+ÙˆÚº Ú©Û’ گُلنار Ø+جابوں Ú©ÛŒ طرØ+

وہ سمندر ہے تو پھر رُوØ+ Ú©Ùˆ شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں Ú©ÛŒ طرØ+

غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رِستے ہُوئے زخموں Ú©Û’ Ø+سابوں Ú©ÛŒ طرØ+

یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہُوئی کتابوں Ú©ÛŒ طرØ+

کون جانے نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں Ú©ÛŒ طرØ+

شوخ ہوجاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے ‘ ترے دلچسپ جوابوں Ú©ÛŒ طرØ+

ہجر کی شب ‘ مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوشبو ‘مرے کھوئے ہوئے خوابوں Ú©ÛŒ طرØ+