محبت وسوسوں کا آئینہ ھوتی ھے، جس زاویے سے بھی اس کا عکس دیکھیں کوئی نیا وسوسہ کچھ الگ ھی خدشہ سر اُٹھاتا ھے۔ ایک پل پہلے مل کر جانے والا محبوب بھی موڑ مڑتے ھوئے آخری بار پلٹ کر نہ دیکھے تو دیوانوں کی دینا اتھل پتھل ھونے لگتی ھے کہ جانے کیا ھوگا؟ کہیں وہ روٹھ تو نہیں گیا۔ کوئی بات بُری تو نہیں لگ گئی اُسے؟ اور پھر اگلی ملاقات تک سارا چین و سکون غارت ھو جاتا ھے۔ کچھ ایسا ھی حال میرا بھی تھا لیکن میں کتنا بے بس تھا کہ اپنی مرضی سے قدم بھی نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ کبھی کبھی مجھے اس انسانی جسم کی لاچاری پر بے حد غصہ آتا تھا۔ ہمارے جسم کو ھماری سوچ جیسی پرواز کیوں نہیں عطاء کی گئی؟ ایسا ھوتا تو میں اُڑ کر اُس بے پروا کے در جا پہنچتا کہ اس تغافل کی وجہ تو بتا دے

از ہاشم ندیم، تغافل سے اقتباس