آنے والا کل بہت رنگین ہے چنتا نہ کر
نیند اڑ جائے گی راتوں کی، بہت سوچا نہ کر
شام کے سائے بدن کی روشنی پی جائیں گے
دن ڈھلے احساس کی دہلیز پر بیٹھا نہ کر
آنکھ میں کانٹا نہ چبھ جائے کسی کے روپ کا
دیکھنے والی نظر کو غور سے دیکھا نہ کر
روشنی کے پر سمیٹے چھپ گیا تو کیا ہوا
کل نیا سورج نکل آئے گا جی ہلکا نہ کر
دل کے دامن میں چھپا لے درد کا آتش فشاں
دیکھ اپنے آنسوؤں کو اس طرح رسوا نہ کر
نا امیدی کفر کی کالک ہے چہرے پر نہ مل
آئنیے کو وسوسوں کی گرد سے میلا نہ کر
ضبط کی دیوار عاجزؔ پھاند کر پچھتائے گا
دیکھ میری مان لے ، ایسا نہ کر، ایسا نہ کر