کفار و مشرکین کے مذہبی تہواروں میں سے جیسے ہی کسی تہوار کی آمد ہوتی ہے مثلاً ہندوؤں کی ہولی اور دیولی، سکھوں کے بابا گرو ناناک کا جنم دن اور خاص کر عیسائیوں کی کرسمس تو فوراً ہمارے ارباب اختیار اور دانشور حضرات رواداری، محبت، بھائی چارہ اور فروغ امن کے نام ان تہواروں کو نہ صرف خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ ان تہواروں کی مذہبی رسومات یا تقریبات میں بنفس نفیس شرکت کرتے ہیں۔
چنانچہ معاملے اگر ہمارے ان ارباب اختیار اور دانشورحضرات کا ہوتا جن کا دین اورغیرت سے دور تک کا کوئی واسطہ نہیں تو خیر تھی لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ وہ دینی و سیاسی جماعتیں جو توہین رسالت اور دیگر دینی و ملی معاملات پر زبانی طور پر مرمٹنے کے دعوے کرتے نہیں تھکتی، ان کے قائدین نہ صرف ان تہواروں میں شرکت کرتے ہیں بلکہ اس بات سے قطع نظر کہ ان تہواروں کی تعظیم اور ان میں شرکت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ان تہواروں کی جانتے بوجھتے اور شعوری طورپر تعظیم اور ان میں شرکت کفر تو نہیں ہے؟ اب تو ان تہواروں کی تقریبات اپنے دینی مراکز میں کرانے سے بھی نہیں چوکتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ)) (سنن ابی داود،ج:۱۱،ص:۴۸رقم:۳۵۱۲)
”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ انہی میں سے ہے“۔
سلف و خلف کے فقہاء اور علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم کے مذہبی تہواروں کی تعظیم اور تقریبات کا انعقاد شعوری طور پر کیا جائے تو یہ کفر ہے اور اس فعل سے انسان اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
((حَدَّثَنِی ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاکِ قَالَ نَذَرَ رَجُلٌ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّی نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَلْ کَانَ فِیہَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوا لَا قَالَ ہَلْ کَانَ فِیہَا عِیدٌ مِنْ أَعْیَادِہِمْ قَالُوا لَا قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہُ لَا وَفَاء َ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللَّہِ وَلَا فِیمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ)) (سنن ابی داود،ج:۹،ص:۱۴۰رقم:۲۸۸۱)
”حضرت ثابت بن ضحاک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرے گا۔ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ کیا بوانہ میں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی وہاں پوجا کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں پھر آپ نے پوچھا کیا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تو اپنی نذر پوری کر کیونکہ گناہ میں نذر کا پورا کرنا جائز نہیں ہے اور اس چیز میں نذر لازم نہیں آتی جس میں انسان کا کوئی اختیار نہ ہو“۔
اس حدیث کی روشنی میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”جب جاہلی میلوں اور عبادت گاہوں پر کسی عقیدت مندانہ حاضری کو منع کردیا گیا تو خود جاہلی عیدوں میں شرکت بدرجہ اولی ممنوع ہوگئی“۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ سورہ الفرقان کی آیت نمبر 72،
{وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّوْر}
”رحمان کے بندے جھوٹ پر گواہ نہیں ہوتے“۔
کی تفسیرمیں ”الزور“ کو بعض تابعین نے غیر مسلموں کی مذہبی تقریبات کو مراد لیا ہے۔
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”الزور سے مراد عیسائیوں کی عید شعانین مراد ہے“۔
امام مجاہد رحمہ اللہ اور ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(ھواعیادالمشرکین)
”یہ مشرکوں کی عید کو کہتے ہیں“۔
قاضی ابو یعلی اور امام ضحاک رحمہمااللہ سے بھی یہی رائے منقول ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
”جب اللہ تعالی نے کفار کی عیدوں میں تماش بینی اور حاضری منع کردی تو عملا انہیں منانا کہاں جائز ہوسکتا ہے“۔
امام عطا بن یسار رحمہ اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ:
”ایاکم ورطانة الاعاجم وان تدخلواعلی المشرکین یوم عیدھم فی کنائسھم“
”نہ مشرکین کی زبان بولو اور نہ ان کی عید کے دن ان کی عبادت گاہوں میں جاؤ“۔
فقہاء مالکی سے یہ قول بھی منقول ہے:
”جو مشرکین کے کسی تہوار میں خربوزے کو خاص طرح سے کاٹتا ہے (جیسے آجکل کرسمس کا کیک) تو گویا وہ خنزیر ذبح کرتا ہے“۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول یہ ارشاد بھی نقل کرتے ہیں کہ:
اجتنبوا اعداء اللہ فی عیدھم
”اللہ کے دشمنوں سے ان کی عیدمیں بچو“۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(من بنی بارض المشرکین وصنع ینروزھم ومھرجانھم وتشبہ بھم حتی یموت،حشر معھم یوم القیامۃ)
”جو مشرکین کے درمیان رہتا ہے اور ان کی عید نوروز اور تہوار مناتا ہے اور ان کی صورت اختیار کرتا ہے اور اسی حال میں مرجاتا ہے تو قیامت کے دن ان ہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا“۔
(امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ”اقتضاء الصراط المستقیم“ کے اردو ترجمے ”اسلام اور غیر اسلامی تہذیب“ سے اقتباس، پسند فرمودہ سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ)