مرے خدایا! میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
یہ میرا چہرہ، یہ میری آنکھیں
بجھے ہوئے چراغ جیسے
جو پھر سے جلنے کے منتظِر ہوں
وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
جنھوں نے پیماں کئیے تھے مجھ سے
رفاقتوں Ú©Û’ØŒ Ù…Ø+بتوں Ú©Û’
کہا تھا مجھ سے کہ اے مسافر رہِ وفا کے
جہاں بھی جائیگا ہم بھی آئیں گے ساتھ تیرے
بنیں گے راتوں میں چاند ہم تو دن میں سائے بکھیر دیں گے
وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
وہ اپنے پیماں رفاقتوں Ú©Û’ Ù…Ø+بتوں Ú©Û’
شکست کرکے
نہ جانے اب کس کی رہ گزر کا منارہءِ روشنی ہوئے ہیں
مگر مسافر کو کیا خبر ہے
وہ چاند چہرا تو بجھ گیا ہے
ستارہ آنکھیں تو سو گئی ہیں
وہ زلفیں بے سایہ ہوگئی ہیں
وہ سوشنی اور وہ سائے مری عطا تھے
سو مری راہوں میں آج بھی ہیں
کہ میں مسافر رہِ وفا ہوں
وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
ہزاروں چہروں ہزاروں آنکھوں
ہزاروں الفوں کا اک سیلابِ تند لے کر
مرے تعاقب میں آرہے ہیں
ہر ایک چہرہ ہے چاند چہرہ
ہیں ساری آنکھیں ستارہ آنکھیں
تمام ہیں
مہرباں سایہ دار زلفیں
میں کس کو چاہوں ، کس کو چوموں
میں کس کے سائے میں بیٹھ جاؤں
بچُوں کہ طوفاں میں ڈوب جاؤں
کہ میرا چہرہ، نہ مری آنکھیں
مرے خدایا! میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں