بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کھچا Ú©Ú¾Ú† بھرا ہوا تھا اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی غیر Ø+اضر نہ تھا۔ بلدیہ Ú©Û’ زیرِ بØ+Ø« مسئلہ یہ تھا کہ زنان بازاری Ú©Ùˆ شہر بدر کر دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب Ú©Û’ دامن پر بد نما داغ ہے۔

بلدیہ Ú©Û’ ایک بھاری بھرکم رکن جو ملک Ùˆ قوم Ú©Û’ سچے خیر خواہ اور دردمند سمجھے جاتے تھے نہایت فصاØ+ت سے تقریر کر رہے تھے۔

"اور پھر Ø+ضرات آپ یہ بھی خیال فرمائیے کہ ان کا قیام شہر Ú©Û’ ایک ایسے Ø+صے میں ہے جو نہ صرف شہر Ú©Û’ بیچوں بیچ عام گزر گا ہ ہے بلکہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے چنانچہ ہر شریف آدمی Ú©Ùˆ چار Ùˆ ناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں شرفاء Ú©ÛŒ پاک دامن بہو بیٹیاں اس بازار Ú©ÛŒ تجارتی اہمیت Ú©ÛŒ وجہ سے یہاں آنے اور خرید Ùˆ فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ صاØ+بان! یہ شریف زادیاں ان آبرو باختہ، نیم عریاں بیسواؤں Ú©Û’ بناؤ سنگار Ú©Ùˆ دیکھتی ہیں تو قدرتی طور پران Ú©Û’ دل میں بھی آرائش Ùˆ دلربائی Ú©ÛŒ نئی نئی امنگیں اور ولولے پیدا ہوتے ہیں اور وہ اپنے غریب شوہروں سے طرØ+ طرØ+ Ú©Û’ غازوں، لونڈروں، زرق برق ساریوں اور قیمتی زیوروں Ú©ÛŒ فرمائشیں کرنے لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا پُر مسرت گھر، ان کا راØ+ت کدہ ہمیشہ Ú©Û’ لئے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔

غلام عبّاس کے افسانے "آنندی " سے اقتباس