میری قوم۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہاری مثال اس آدمی کی سی ہے جس کے گھر پر ڈاکو قبضہ کر لیں اور اسے زنجیروں میں کس کر ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں پھینک دیں اور وہ طاقت ور لٹیروں سے مرعوب ہو کر صرف یہ کہے کہ مجھے زنجیر چبھتی ہے اسے ذرا ڈھیلا کر دو۔
تنگ و تاریک کوٹھڑی میں میرا دم گھٹتا ہے اس لیے روزن کا ایک دروازہ کھول دو۔
تاریکی میں میرا جی گھبراتا ہے اس لئے ایک چراغ بھی روشن کر دو۔ جب تم میرے مکان Ú©Û’ کشادہ کمروں میں بیٹھ کر گاتے ہو تو میرا بھی جی چاہتا ہے اس لئے مجھے بھی گلا پھاڑنے Ú©ÛŒ اجازت دو۔ وہ صرف چند Ù¹Ú©ÙˆÚº Ú©ÛŒ بھیک مانگتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ یہ تمام خزانہ اس کا تھا اور پھر جو ملتا ہے اسے اپنے لئے ایک بڑا انعام سمجھتا ہے اور جو نہیں ملتا اس Ú©Û’ متعلق خیال کرتا ہے کہ یہ اس Ú©Ùˆ Ø+Ù‚ ہی نہ تھا۔ غلامی ØŒ بے بسی اور مجبوری اس Ú©Û’ لئے دھرم بن جاتی ہے اور طاقت ور لٹیرا اسے انسان نہیں دیوتا نظر آتا ہے۔

(اقتباس از انسان اور دیوتا)
( نسیم Ø+جازی)