Results 1 to 2 of 2

Thread: Patras Bukhari_Mai Ek Mian Hon

  1. #1
    Join Date
    Jan 2013
    Location
    Islamabad
    Posts
    1,031
    Mentioned
    1 Post(s)
    Tagged
    4328 Thread(s)
    Rep Power
    251270

    Default Patras Bukhari_Mai Ek Mian Hon



    میں ایک میاں ہوں



    میں ایک میاں ہوں۔ مطیع وفرمانبردار، اپنی بیوی روشن آراء کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ رکھنا اصول زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔
    چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں Ú©ÛŒ تمام عادات وخصائل سے واقف ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ Ú©Ùˆ عزیز ہیں اتنے ہی روشن آراء Ú©Ùˆ برے لگتے ہیں۔ میرے اØ+باب Ú©ÛŒ جن اداؤں Ù†Û’ مجھے مسØ+ور کررکھا ہے انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان Ú©Û’ ليے باعث ذلت سمجھتی ہیں۔
    آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدانØ+واستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ Ú©Ú†Ú¾ اپنے ہنر Ú©Û’ طفیل اور Ú©Ú†Ú¾ خاکسار Ú©ÛŒ صØ+بت Ú©ÛŒ بدولت سب Ú©Û’ سب ہی سفید پوش ہیں۔ لیکن اس بات Ú©Ùˆ کیا کروں کہ ان Ú©ÛŒ دوستی میرے گھر Ú©Û’ امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ Ú©Ú†Ú¾ کہہ نہیں سکتا۔
    مثلاً مرزا صاØ+ب ہی Ú©Ùˆ لیجیئے، اچھے خاصے اور بھلے آدمی ہیں۔ Ú¯Ùˆ Ù…Ø+کمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن Ø´Ú©Ù„ وصورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جواٴ وہ نہیں کھیلتے، Ú¯Ù„ÛŒ ÚˆÙ†ÚˆÛ’ کا ان Ú©Ùˆ شوق نہیں۔ جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں Ù¾Ú©Ú‘Û’ گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں، ان ہی سے جی بہلاتے ہیں۔ ہماری اہلیہ Ú©ÛŒ یہ کیفیت ہے کہ Ù…Ø+Ù„Û’ کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس Ú©ÛŒ ماں Ú©Û’ پاس ماتم پرسی تک Ú©Ùˆ Ú†Ù„ÛŒ جاتی ہیں۔ Ú¯Ù„ÛŒ ÚˆÙ†ÚˆÛ’ میں کسی Ú©ÛŒ آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں، لیکن وہ بزرگ جن Ú©Ùˆ دنیا بھر Ú©ÛŒ زبان میں مرزا صاØ+ب کہتے تھکتی ہے وہ ہمارے گھر میں "موئے کبوترباز" Ú©Û’ نام سے یاد کئے جاتے ہیں کبھی بھولے سے بھی میں آسمان Ú©ÛŒ طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوئے، گدھ، شکرے Ú©Ùˆ دیکھنے Ù„Ú¯ جاؤں تو روشن آراء Ú©Ùˆ فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوترباز بننے لگا۔
    اس Ú©Û’ بعد مرزا صاØ+ب Ú©ÛŒ شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بØ+ر میں، کبھی چھوٹی بØ+ر میں۔
    ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں Ù†Û’ مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت Ú©Ùˆ کبھی پاس نہ Ù¾Ú¾Ù¹Ú©Ù†Û’ دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ بیوی Ú©Û’ باہمی اخلاص Ú©Û’ مقابلے میں دوستوں Ú©ÛŒ خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاØ+ب Ú©Û’ گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے Ù„Ú¯Û’ اندر آجاؤ۔ ہم Ù†Û’ کہا، نہیں آتے تم باہر آؤ۔ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر Ú©ÛŒ چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے Ù„Ú¯Û’ بیٹھ جاؤ ہم Ù†Û’ کہا، بیٹھیں Ú¯Û’ نہیں، آخر بیٹھ گئے معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور Ú©Ú†Ú¾ بگڑے ہوئے تھے، مرزا بولے کیوں بھئی؟ خیرباشد! میں Ù†Û’ کہا Ú©Ú†Ú¾ نہیں۔ کہنے Ù„Ú¯Û’ اس وقت کیسے آنا ہوا؟
    اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو، پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو۔ لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں، آخر ہم نے کہا۔
    "مرزا، بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟"
    یہ سنتے ہی مرزا صاØ+ب Ù†Û’ چین سے Ù„Û’ کر امریکہ تک Ú©Û’ تمام کبوتروں Ú©Ùˆ ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس Ú©Û’ بعد دانے Ú©ÛŒ مہنگائی Ú©Û’ متعلق Ú¯Ù„ افشانی کرتے رہے اور پھر Ù…Ø+ض مہنگائی پر تقریر کرنے Ù„Ú¯Û’Û” اس دن تو ہم یوں ہی Ú†Ù„Û’ آئے لیکن ابھی Ú©Ú¾Ù¹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام Ú©Ùˆ گھر میں ہماری صلØ+ ہوگئی۔ ہم Ù†Û’ کہا، چلو اب مزرا Ú©Û’ ساتھ بگاڑنے سے کیا Ø+اصل؟ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلØ+ صفائی ہوگئی۔
    لیکن میری زندگی تلخ کرنے Ú©Û’ ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت Ù†Û’ میری طبیعت میں قبولیت اور صلاØ+یت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ Ú©Ùˆ ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست Ú©ÛŒ عادات قبیØ+ہ Ú©ÛŒ جھلک نظر آتی رہتی ہے یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔
    شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اٹھا کرتے تھے ورنہ گیارہ بجے۔ اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جن Ú©Û’ گھر ناشتہ زبردستی صبØ+ Ú©Û’ سات بجے کرا دیا جاتا ہےاور اگر ہم کبھی بشری کمزوری Ú©Û’ تقاضے سے مرغوں Ú©ÛŒ طرØ+ تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا کہ ہے کہ یہ اس نکھٹو نسیم Ú©ÛŒ صØ+بت کا نتیجہ ہے۔ ایک دن صبØ+ صبØ+ ہم نہا رہے تھے، سردی کا موسم ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے، صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم Ù†Û’ خدا جانے کس پراسرار جذبے Ú©Û’ ماتØ+ت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا۔ اور پھر گانے Ù„Ú¯Û’ کہ "توری Ú†Ú¾Ù„ بل ہے نیاری۔۔۔"اس Ú©Ùˆ ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا، اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی Ú©Ùˆ ٹھہرایا گیا۔
    لیکن Ø+ال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانØ+ہ گزرا ہے کہ میں Ù†Û’ تمام دوستوں Ú©Ùˆ ترک کر دینے Ú©ÛŒ قسم کھالی ہے۔
    تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبØ+ Ú©Û’ وقت روشن آراء Ù†Û’ مجھ سے میکے جانے Ú©Û’ لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے، روشن آراء صرف دو دفعہ میکے گئی ہے اور پھر اس Ù†Û’ Ú©Ú†Ú¾ اس سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔ کہنے Ù„Ú¯ÛŒ تو پھر میں ڈیڑھ بجے Ú©ÛŒ گاڑی میں Ú†Ù„ÛŒ جاؤں؟ میں Ù†Û’ کہا اور کیا؟
    وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کئے۔ یعنی اب بےشک دوست آئیں، بےشک ادوھم مچائیں، میں بےشک گاؤں، بےشک جب چاہوں اُٹھوں، بےشک تھیٹر جاؤں، میں نے کہا۔
    "روشن آراء جلدی کرو، نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔" ساتھ اسٹیشن پر پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کراچکا تو کہنے لگی "خط روز لکھتے رہئے!" میں نے کہا"ہر روز اور تم بھی!"
    "کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیئے اور وہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں"۔ اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے۔ اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھو میں آنسو بھر آئے، میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔
    آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا، تہہ کرکے جیب ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کیا۔
    پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں، دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔
    کہتے ہیں، جب افریقہ Ú©Û’ ÙˆØ+شیوں Ú©Ùˆ کسی تہذیب یافتہ ملک میں Ú©Ú†Ú¾ عرصہ رکھا جاتا ہے تو Ú¯Ùˆ وہ وہاں Ú©ÛŒ شان وشوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی Ú©Û’ مارے چیخیں مارتے ہیں۔ Ú©Ú†Ú¾ ایسی ہی کیفیت میرے دل Ú©ÛŒ بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا، آزادی Ú©Û’ لہجہ میں تانگے والے Ú©Ùˆ بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب Ú©Ùˆ روانہ ہوگیا۔
    رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آیا، تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا، باہر ہی سے نوکرکو آوازد دی۔
    "امجد"
    "Ø+ضور!"
    "دیکھو، Ø+جام Ú©Ùˆ جاکے کہہ دو کہ Ú©Ù„ گیارہ بجے آئے۔"
    "بہت اچھا۔"
    "گیارہ بجے سن Ù„ÛŒ نا؟ کہیں روز Ú©ÛŒ طرØ+ پھر Ú†Ú¾ بجے وارد نہ ہوجائے۔"
    "بہت اچھا Ø+ضور۔"
    "اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے، تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔"
    یہاں سے کلب پہنچے، آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا، اندر داخل ہوا تو سنسان۔ آدمی کا نام ونشان تک نہیں سب کمرے دیکھ ڈالیے۔ بلیرڈ کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی۔ تاش کا کمرہ خالی، صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کررہا تھا۔ اس سے پوچھا"کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟"
    کہنے لگا "Ø+ضور آپ جانتے ہیں، اس وقت بھلا کون آتا ہے؟"
    بہت مایوس ہوا باہر Ù†Ú©Ù„ کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور Ú©Ú†Ú¾ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاØ+ب Ú©Û’ گھر پہنچا معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے، دفتر پہنچا دیکھ کر بہت Ø+یران ہوئے، میں Ù†Û’ سب Ø+ال بیان کیا کہنے Ù„Ú¯Û’Û” "تم باہر Ú©Û’ کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے، بس ابھی بھگتا Ú©Û’ تمہارے ساتھ چلتا ہوں، شام کا پروگرام کیا ہے؟"
    میں نے کہا۔ "تھیٹر!"
    کہنے لگے۔ "بس بہت ٹھیک ہے، تم باہر بیٹھو میں ابھی آیا۔"
    باہرکے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی، اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال پڑھنا شروع کردیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا، پھر سے پڑھنا شروع کردیا۔ سب اشتہار پڑھ ڈالےاور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔
    آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا Ù„Ø+اظ Ú©Û’ جمائیاں لینے لگا۔ جمائی پہ جمائی۔
    جمائی پہ جمائی۔ Ø+تیٰ کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔
    اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیا لیکن اس سے بھی تھک کیا۔
    پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔
    بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا۔ "ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا، مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کردیا۔"
    وہاں سے اُٹھ کر مرزا Ú©Û’ گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا۔ اور وہاں سے دوستوں Ú©Ùˆ ساتھ ليے تھیٹر گئے، رات Ú©Û’ ڈھائی بجے گھر لوٹے، تکئے پر سر رکھا ہی تھا، کہ نیند Ù†Û’ بےہوش کردیا۔ صبØ+ آنکھ Ú©Ú¾Ù„ÛŒ تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ Ú¯Ú¾Ú‘ÛŒ Ú©Ùˆ دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔
    گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا "Ø+ضور Ø+جام آیا ہے۔"
    ہم Ù†Û’ کہا۔ "یہیں بلا لاؤ"Û” یہ عیش مدت بعد نصیب ہوا، کہ بستر میں لیٹے لیٹے Ø+جامت بنوالیں، اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کےليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس Ú©ÛŒ امید لگائے بیٹھے تھے، چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال۔ دل میں آیا، وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ اور سودائیوں Ú©ÛŒ طرØ+ اس رومال Ú©Ùˆ دیکھتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سردئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر Ú©ÛŒ خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھرآیا، گھر سونا معلوم ہونے لگا۔ بہتر اپنے آپ Ú©Ùˆ سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی Ù¾Ú‘Û’Û” آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا۔ اور سچ Ù…Ú† رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔
    آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ میں بہت اداس ہوں تم فوراً آجاؤ!
    تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا، یقین تھا کہ روشن آراء اب جس قدر جلد ہوسکے گا، آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔
    دوسرے دن دوپہر Ú©Ùˆ مرزا Ú©Û’ مکان پر تاش کا معرکہ گرم ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا Ú©Û’ والد سے Ú©Ú†Ú¾ لوگ ملنے آئے ہیں اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی، سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ Ø+Ù‚Û’ میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں۔ اور پان اس طرØ+ سے متواتر پہنچے رہیں کہ بس تانتا Ù„Ú¯ جائے۔
    اب اس Ú©Û’ بعد Ú©Û’ واقعات Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ مرد ہی اچھی طرØ+ سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے قواعدوضاوبط Ú©Û’ مطابق اور متانت وسنجیدگی Ú©Û’ ساتھ۔ لیکن ایک دو گھنٹے Ú©Û’ بعد Ú©Ú†Ú¾ خوش طبعی شروع ہوئی، یار لوگوں Ù†Û’ ایک دوسرے Ú©Û’ پتے دیکھنے شروع کردیئے۔ یہ Ø+الت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہےپر قہقہے اُڑنے Ù„Ú¯Û’Û” تین گھنٹے Ú©Û’ بعد یہ Ø+الت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے۔ لیکن تاش برابر ہورہا ہے۔ تھوڑی دیر Ú©Û’ بعد دھول دھپا شروع ہوا، ان خوش فعلیوں Ú©Û’ دوران میں ایک مسخرے Ù†Û’ ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس Ú©Û’ آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جاتا ہے۔ وہ چور۔ سب Ù†Û’ کہا "واہ واہ کیا بات کہی ہے"Û” ایک بولا۔ "پھر آج جو چور بنا، اس Ú©ÛŒ شامت آجائے Ú¯ÛŒ"Û” دوسرے Ù†Û’ کہا۔ "اور نہیں تو کیا بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں Ú©Û’ معاملے ہیں سلطنتوں Ú©Û’!"
    کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرØ+ طرØ+ Ú©ÛŒ سزائیں تجویز ہونے لگیں۔ کوئی کہے، "ننگے پاؤں بھاگتے ہوئے جائے اور Ø+لوائی Ú©ÛŒ دکان سے مٹھائی خرید کر لائے"Û” کوئی کہے، "نہیں Ø+ضور، سب Ú©Û’ پاؤں Ù¾Ú‘Û’ØŒ اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔" دوسرے Ù†Û’ کہا "نہیں صاØ+ب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔" آخر میں بادشاہ سلامت بولے۔ "ہم Ø+Ú©Ù… دیتے ہیں کہ چور Ú©Ùˆ کاغذ Ú©ÛŒ ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اور اس Ú©Û’ چہرے پر سیاہی مل دی جائے۔ اور یہ اس Ø+الت میں جاکر اندرسے Ø+Ù‚Û’ Ú©ÛŒ چلم بھر کر لائے۔" سب Ù†Û’ کہا۔ "کیا دماغ پایا ہے Ø+ضور Ù†Û’Û” کیا سزا تجویز Ú©ÛŒ ہے! واہ واہ!"
    ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا "تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔" نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی، ایک شان استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیئے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔
    صØ+Ù† پر پہنچےہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی، منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آراء!
    دم خشک ہوگیا، بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا، زبان بند ہوگئی، سامنے وہ روشن آراء جس Ú©Ùˆ میں Ù†Û’ تار دے کر بلایا تھا کہ تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں اور اپنی یہ Ø+الت Ú©Ùˆ منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ Ú©ÛŒ ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہیں، اور مردانے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔
    روØ+ منجمد ہوگئی اور تمام Ø+واس Ù†Û’ جواب دے دیا۔ روشن آراء Ú©Ú†Ú¾ دیر تک Ú†Ù¾Ú©ÛŒ Ú©Ú¾Ú‘ÛŒ دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ لیکن میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس Ú©ÛŒ آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی Ú©Û’ عالم میں پہنچ رہی تھی۔
    اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں Ú¯Û’ØŒ کہ میں بذات خود از Ø+د شریف واقع ہوا ہوں، جہاں تک میں، میں ہوں مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی، میری سسرال میں سب Ú©ÛŒ یہی رائے ہے۔ اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں Ù†Û’ مجھے رسوا کردیا ہے۔ اس ليے میں Ù†Û’ مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی Ú©Ùˆ اپنے گھر آنے دوں گا سوائے ڈاکیے یا Ø+جام Ú©Û’Û” اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔
    "خط ہے؟"
    "جی ہاں"
    "دے جاؤ، چلے جاؤ۔"
    "ناخن تراش دو۔"
    "بھاگ جاؤ۔"
    بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا، آپ دیکھئے تو سہیٴ!
    آنسو اور مسکرا ہٹ دو انمول خزانے ہیں-پہلے خزانے کواپنے تک محدود رکھواور دوسرے کولوگوں پر نچھاور کردو.حضرت علی
    Visit my blog
    http://www.homeopathypakistan.blogspot.com

    MY PAGE ON FB
    www.facebook.comhomeo

  2. #2
    *jamshed*'s Avatar
    *jamshed* is offline کچھ یادیں ،کچھ باتیں
    Join Date
    Oct 2010
    Location
    every heart
    Posts
    14,585
    Mentioned
    138 Post(s)
    Tagged
    8346 Thread(s)
    Rep Power
    21474865

    Default re: Patras Bukhari_Mai Ek Mian Hon

    Superb

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •