Ûنستے Ûنستے
عظمت چغتائی
Ûنستے Ûنستے بے Ø+ال ÛÙˆ کر نیر تخت سے نیچے Ù„Ú‘Ú¾Ú© گئی۔
"بس کرو الله کا واسطÛ" میں Ù†Û’ Ú©Ø±ØªÛ Ú©Û’ دامن سے آنسوپونچھ کر خوشامد سے Ú©Ûا۔ Ûمارے پیٹوں میں مروڑیاں اٹھ رÛÛŒ تھیں۔ سانس پھول گئی تھی۔ Ûنسی چیخوں میں بدل گئی تھی۔ ایسا معلوم Ûوتا اگر Ûنسی کا ÛŒÛ Ø²Ù†Ø§Ù¹Ø§ رÛا تو Ú©Ú†Ú¾ دیر میں جسم بیچ میں سے دو Ù¹Ú©Ú‘Û’ Ûوجائےگا۔
ÛŒÛ ÙˆÛ Ø²Ù…Ø§Ù†Û ØªÚ¾Ø§ جب بات بات پر Ûنستی آتی تھی۔ کوئی پھسل پڑا Ûنسی چھوٹ نکلی۔ مرغے Ù†Û’ کتے Ú©ÛŒ پلے Ú©Û’ ٹھونگ ماردی۔ ÙˆÛ Ù¾ÛŒÚº پیں کرکے بھاگا اور Ù‚ÛÙ‚ÛÙˆÚº کا طوÙان ٹوٹ پڑا اور جو Ú©Ûیں کس Ú©ÛŒ Ù…Û’ پوچھ لیا Ú©Û Ø¨Ú¾Ø¦ÛŒ کیوں Ûنس رÛÛŒ Ûیں تو پس پھر تو Ûنسی کا ÙˆÛ Ø´Ø¯ÛŒØ¯ Ø¯ÙˆØ±Û Ù¾Ú‘Ø¬Ø§ØªØ§ Ú©Û Ù…Ø¹Ù…ÙˆÙ„ÛŒ مار پیٹ سے بجائے قابو میں آنے Ú©Û’ اور بھی تیز Ûوجاتا۔ Ûنسی آسیب بن کر سوار Ûوجاتی Ûنس Ûنس کر شل Ûوجاتی، Ûڈیاں چٹخنے لگتیں، جبڑے دکھ جاتے۔
کسی صورت اÙØ§Ù‚Û Ù†Û Ûوتے دیکھ کر امام اپنی چپٹی سلیم Ø´Ø§Û Ù„Û’ کر تل پڑتیں اور ساری Ûنسی ناک Ú©Û’ راستے نکال دینے Ú©ÛŒ دھمکی دیتیں۔ تب ÛÙ… ناکیں پونچتے پیٹ Ù¾Ú©Ú‘Û’ نیم تلے Ù¾Ú‘Û’ Ûوئے اپنے مخصوص جھلنگے میں جا گرتے اور نئے سرے سے Ûنسنے لگتے۔
عظیم بھائی Ú©ÛŒ کتابوں میں سے مضامین پطرس چرا کر Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ بعد بھی ÛÙ… اسی قسم Ú©ÛŒ جان لیوا Ûنسی Ú©Û’ بھنور میں پھنس گئے۔ Ûماری Ú©Ú¾ÛŒ Ú©Ú¾ÛŒ Ú©Ú¾ÙˆÚº Ú©Ú¾ÙˆÚº سے Ûماری برباد اور غم گین آپا Ú©ÛŒ سمع خيراشی Ûونے لگی۔ دو دÛÙ¾ سر پر جمائے کتاب چھین Ù„Û’ گئیں۔ مگر ÛŒÛ ÛÙ… Ù†Û Ø¬Ø§Ù†Û’ کون سی بار کتاب Ù¾Ú‘Ú¾ رÛÛ’ تھے۔ Ûمیں جملے Ú©Û’ جملے یاد Ûوگئے تھے جو اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے دÛرائےجاتے تھے اور قلابازياں لگائی جاتی تھیں Û” Ù†Û Ø¬Ø§Ù†Û’ ایک عمر میں کیوں بے بات Ûنسی آتی ÛÛ’ØŒ اب ÙˆÛÛŒ مضامین پڑھتی ÛÙˆÚº تو اتنی Ûنسی Ù†Ûیں آتی۔
اس وقت عظیم بھائی Ù†Û’ مزاØ+ نگاری شروع نیں Ú©ÛŒ تھی یا داید ÛÙ… Ù†Û’ ان Ú©Û’ مضامین Ù†Ûیں پڑھتے تھے۔ ملارموزی Ú©Û’ مضامین پر اتنی Ûنسی Ù†Ûیں آتی تھی جیسی کبھی آیا کرتی تھی۔ Ú©Ú†Ú¾ پھیکے سے Ù„Ú¯Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’ تھے Ù†Û Ø¬Ø§Ù†Û’ کیوں۔ بس پطرس بھاگئے اور ایک جان Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ Ûزار جان سے ان پر عاشق Ûوگئے۔ Ù†Û Ø¬Ø§Ù†Û’ کیوں تخیل میں ÙˆÛ Ø§Ù¾Ù†Û’ ÛÙ… عمر سے نظر آتے تھے اور یقین تھا Ú©Û Ø§Ú¯Ø± ان سے ملاقات Ûوجائے ÛÙ… ضرورت انÛیں پیڑ پر بندھی اس بان Ú©ÛŒ کھٹولی پر چڑھالے جائیں جو کنویں Ú©Û’ پاس نیم Ú©ÛŒ اونچی شاخوں پر شمیم اور چنو Ù†Û’ باندھ رکھی تھی۔
پطرس Ú©ÛŒ باتیں..... جی Ûاں انÛÙˆÚº میں باتیں ÛÛŒ Ú©ÛÙˆÚº گی۔ Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û Ø§Ù† Ú©ÛŒ تØ+ریریں بے Ø³Ø§Ø®ØªÛ Ø¨ÙˆÙ„ØªÛŒ تھی۔ ان میں بڑی یگا نگت اور قربت Ù…Ø+سوس Ûوتی تھی۔ Ûمارے گھر Ú©Û’ Ø²Ù†Ø¯Û Ù…Ø§Ø+ول میں بڑی بے تکلÙÛŒ سے کھپتی تھی چھوٹے بڑے سب ÛÛŒ انÛیں پسند کرنے Ù„Ú¯Û’Û”
عظیم بھائی Ù†Û’ "قصر صØ+را" Ù„Ú©Ú¾ÛŒ تو ÛÙ… Ù†Û’ جی جان سے Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ مگر "قرآن Ùˆ پردÛ"........ "Ø+دیث Ùˆ پردÛ" بڑی بور معلوم Ûوئیں۔ خشک Ù…Ø±Ø¯Û Ú©ØªØ§Ø¨ÛŒÚº ان Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ مضامین اقتصادیات "ریاست" میں نکلتے تھے ÙˆÛ Ûمیں قطعی کھردرے معلوم Ûوتے تھے۔ انÛÙˆÚº Ù†Û’ جب Ûمیں پطرس Ú©Û’ مضامین اس رغبت سے پڑھتے دیکھا تو Ú©Ú†Ú¾ مکدر سے Ûوگئے۔
نانی عشو Ù¾Ú‘Ú¾ کر Ûنسنے کا دور گزر چکا تھا۔ سخت رومنٹک اÙسانوں سے کبھی شدید دل چسپی Ù†Û Ø±ÛÛŒ تھی۔ ÛŒÛÛŒ ÙˆØ¬Û ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û Ûمیں پطرس بے طرØ+ پسند آگئے۔ "میں ایک میاں ÛÙˆÚº" Ûمارے گھر میں بالکل کیری Ú©ÛŒ چٹنی Ú©ÛŒ طرØ+ چٹخارے Ù„Û’ کر پڑھا گیا۔ اماں تک Ù†Û’ Ù¾Ú‘Ú¾ ڈالا اور جب اپنی پلنگڑی پر بیٹھ Ú©Ø±ÙˆÛ Ûنسیں تو پان دان Ú©ÛŒ کلھیاں پھدک پھدک کر آپس میں ٹکرانے لگیں۔ میں تنقید نگار Ù†Ûیں Ù†Û Ù…ÛŒÚº کوئی بات وثوق سے Ú©ÛÛ Ø³Ú©ØªÛŒ ÛÙˆÚº مگر میرا اپنا ذاتی خیال ÛÛ’ Ú©Û "میں ایک میاں ÛÙˆÚº" Ú©Û’ بعد سے پطرس کا رنگ دوسرے مزاØ+ نگاروں میں جھلکنے لگا۔ عظیم بھائی Ù†Û’ تو اپنی ایک Ú©Ûانی میں اعترا٠بھی کیا ÛÛ’Û” ÙرØ+ت الله بیگ اور شوکت تھانوی Ú©Û’ Ûاں بھی ÙˆÛÛŒ رنگ جھلکنے لگا۔ میں مزاØ+ نگاری Ú©ÛŒ تاریخ Ù†Ûیں Ù„Ú©Ú¾ رÛÛŒ Ûوں، Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û Ù…Ø¬Ú¾Û’ ÛŒÛ Ø¨Ú¾ÛŒ Ù†Ûیں معلوم۔ مگر میرے مطالعے Ú©ÛŒ تاریخ میں Ù¾Ûلا نام پطرس کا آتا ÛÛ’Û” میں پطرس Ú©Ùˆ اپنی جانب سے کوئی مقام Ù†Ûیں دینا Ú†Ø§Û Ø±ÛÛŒ ÛÙˆÚºÛ” مجھے تو بس ÛŒÛ Ú©Ûنا Ú©Û Ø§ÛŒÚ© عمر میں پطرس Ú©ÛŒ تØ+ریریں دل Ú©Ùˆ ایسی Ù„Ú¯ÛŒ تھیں Ú©Û ÛÙ… Ù†Û’ ایک دن جوش میں Ø¢ کر پطرس Ú©Ùˆ خط Ù„Ú©Ú¾ مارا۔ ابا میاں Ú©Û’ بکس سے Ù„ÙاÙÛ Ø§ÙˆØ± Ù¹Ú©Ù¹ چرایا اور معرÙت..... "تÛذیب نسواں" ..... خط بھیج کر جواب کا انتظار کرنے Ù„Ú¯Û’Û”
یاالله تیری Ûر بات میں کوئی Ù†Û Ú©ÙˆØ¦ÛŒ مصلØ+ت Ûوتی ÛÛ’Û” اسی پر تو میں خدا Ú©Û’ وجود Ú©ÛŒ قائل ÛÙˆÚºÛ” ÙˆÛ Ø®Ø· Ù‚Ø¨Ù„Û Ù…Ù…ØªØ§Ø² علی صاØ+ب Ù†Û’ کھول لیا اور مع Ù„ÙاÙÛ Ú©Û’ آپا Ú©Ùˆ جنÛیں انÛÙˆÚº Ù†Û’ Ù…Ù†Û Ø¨ÙˆÙ„ÛŒ بیٹی بنایا تھا بھیج دیا۔ بلی مظلوم سی ایک Ú†ÙˆÛیا Ù¾Ú©Ú‘ لیتی ÛÛ’ اور Ú©Ù… بخت اس سے مذاق کرتی ÛÛ’Û” کبھی دانت ماردیا، کبھی گدگدادیا، کبھی Ù¾Ù†Ø¬Û Ù„Ú‘Ú¾Ú©Ø§ دیا۔ اس خط Ú©Û’ آنے Ú©Û’ بعد کئی روز Ûماری گت اسی طرØ+ بنتی رÛی۔ Ûمارا خط اونچی آواز میں ابا Ú©Û’ سامنے پڑھا گیا۔ Ûر ÙÙ„ اسٹاپ پر سر پر چپتیں پڑتی جاتیں۔ خط میں ÛÙ… Ù†Û’ انÛیں مسخر لونڈا سمجھ کر Ù†Ûایت بے تکلÙÛŒ Ùرمانے Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ تھی۔ اب تک اس خط کا ایک ایک Ø+ر٠دماغ پر داغا Ûوا ÛÛ’Û” برسوں خیال ÛÛŒ سے پسینے چھوٹ جایا کرتے تھے۔ خط Ûمیں تنبیÛÛ Ø¯ÛŒÙ†Û’ Ú©Û’ لئے بار بار پڑھایا جاتا تھا۔ ÛÙ… Ù†Û’ Ù†Ûایت بے تکلÙÛŒ سے اپنی دانت میں بالکل پطرس Ú©Û’ رنگ میں لکھا تھا۔ سب سے بھیانک Ø¬Ù…Ù„Û ØªÚ¾Ø§Û”
"ابے پطرس! کیا گھاس کھاگیا ÛÛ’ØŸ"
"عوام" اس جملے سے Ûماری دھجیاں بکھیرتے تھے۔ Ûر شخص Ú©Ùˆ اجازت تھی Ú©Û Ø¨Û’ تکل٠Ûمارے سر پر چپت جڑ دے۔ ظاÛرÛÛ’ Ú©Û Ø§Ø³ صلائے عام پر ÛØ±Ù†Ú©ØªÛ Ø¯Ø§Úº Ù†Û’ لبیک Ú©Ûا۔ ÛÙ… Ø+ضرت ممتاز علی صاØ+ب اور پطرس Ú©ÛŒ جان Ú©Ùˆ کوستے تھے۔ ÛÙ… مجرم جو تھے۔ صر٠اس لئے Ù†Ûیں Ú©Û Ù¾Ø·Ø±Ø³ سے یا Ø±Ø§Ù†Û Ú¯Ø§Ù†Ù¹Ú¾Ù†Û’ Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ تھی، Ø¨Ù„Ú©Û Ø§Ø³ لئے Ú©Û ÛÙ… Ù†Û’ اس Ù„ÙاÙÛ Ù¾Ø± Ù¹Ú©Ù¹ لگایا، اس پر "سروس" لکھا تھا، جو صر٠سرکاری ڈاک Ú©Û’ استعمال Ú©Û’ لئے Ûوتا تھا۔ آٹھ آٹھ آنے Ø¬Ø±Ù…Ø§Ù†Û Ø§Ù„Ú¯ ٹھکا۔ سچ پوچھئے تو اس سانØ+Û Ú©Û’ بعد پطرس Ûماری Ú†Ú‘ بن گئے۔ Ûماری Ø¬Ù…Ù„Û Ø´ÛŒØ·Ø§Ù†ÛŒÙˆÚº Ú©ÛŒ ÙÛرست بناتے وقت ÛÙ…ÛŒØ´Û Ø§Ø³ ÙˆØ§Ù‚Ø¹Û Ú©Ùˆ ØªÚ©Ù„ÛŒÙ Ø¯Û Ø+د تک اÛمیت دی جاتی۔
بعض اوقات ایک چھوٹی سی بات کا دل پر کتنے دن نقش رÛتا Ûے۔برسوں گزر گئے۔ لوگ بھول بھال گئے، مگر شاید دماغ Ù†Û’ ایک ننھی سی گانٹھ باندھ لی۔ بمبئی میں آئے سال بھر گزرا Ûوگا Ú©Û Ø§ÛŒÚ© دن ریڈیو اسٹیشن کسی صاØ+ب Ù†Û’ Ùون کیا Ú©Û Ø¨Ø®Ø§Ø±ÛŒ صاØ+ب آج Ú©Ù„ بمبئی آئے Ûوئے Ûیں اور مجھ سے ملنا چاÛتے Ûیں۔ Ù¾Ûلا خیال ÛŒÛ Ø¢ÛŒØ§ Ú©Û Ú©ÙˆØ¦ÛŒ بÛØ§Ù†Û Ú©Ø±Ø¯Ùˆ ÚºÛ” Ú©ÛÛ Ùˆ Úº Ú©Û Ø¨ÛŒÙ…Ø§Ø± Ûوں، پھر سوچا ÛŒÛ Ú©ÛŒØ§ Ø+ماقت ÛÛ’Û” پطرس آئے Ûیں۔ یعنی سچ Ù…Ú† پطرس آئے Ûیں اور میں ان سے ملنے جان چرارÛÛŒ ÛÙˆÚºÛ” یعنی ان Ú©Ùˆ کیا Ù¾ØªÛ Ú©Û Ø§ÛŒÚ© دن ان Ú©ÛŒ بدولت میرے چپتیں پڑچکیں Ûیں۔ ÙˆÛ Ù…Ø¬Ú¾Û’ قطعی قابل ملاقات سمجھتے Ûیں، جب ÛÛŒ تو بلایا ÛÛ’Û” خیر لنچ کا ÙˆØ¹Ø¯Û Ø±Ûا۔
مگر میں Ù†Û’ شاÛد سے کوئی ذکر Ù†Ûیں کیا۔ انÛÙˆÚº Ù†Û’ بلایا تو شاÛد Ú©Ùˆ بھی تھا لیکن میں Ù†Û’ بÛØ§Ù†Û Ú©Ø±Ø¯ÛŒØ§ Ú©Û Ø§Ù†Ûیں قطعی Ùرصت Ù†Ûیں۔ ÙˆÛÛŒ میری نیم Ú©Û’ نیچے Ù¾Ú‘Û’ Ûوئے جھلنگے والی Ø°Ûنیت! ÛŒÛ ÚˆØ± Ú©Ù… بخت کاÛÛ’ کاتھا۔ٹھیریئے Ø¢Ú¯Û’ Ú†Ù„ کر بتاؤں گی۔
مجھے ضرورت سے Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ø°Ûین اور Ø¬Ù…Ù„Û Ø¨Ø§Ø² لوگوں سے بÛت ڈر لگتا ÛÛ’Û” ان Ú©ÛŒ شخصیت مجھے اپنا جانب کھینچتی بھی ÛÛ’ اور دور بھی دھکیلتی ÛÛ’Û” اور پھر پطرس کا مجھ پر ویسے ÛÛŒ رعب بیٹھا Ûوا تھا۔ Ø®ÙˆØ§Û Ù…Ø®ÙˆØ§Û Ø§Ù† سے مل کر اور اØ+ساس کمتری دونا Ûوجائے۔ بڑی Ú©ÙˆÙت Ûوئی Ù†Ûیں جاتی ÛÙˆÚº تو Ù†Û Ø¬Ø§Ù†Û’ پھر کتنا پچھتانا Ù¾Ú‘Û’Û” جاتی ÛÙˆÚº تو الله! Ù†Û Ø¬Ø§Ù†Û’ کیسی چوٹیں کریں Ú¯Û’Û” ضرورت وبدتمیزی پر اترآؤں گی۔ قطعی جو جھیل جاؤں۔ میں Ù†Ûیں چاÛتی تھی Ú©Û Ø´Ø§Ûد Ú©Û’ سامنے میرا پول Ú©Ú¾Ù„ جائے۔، ÙˆÛ Ùوراً منٹو سے Ú©ÛÛ Ø¯ÛŒÚº Ú¯Û’ Ú©Û Ù¾Ø·Ø±Ø³ Ù†Û’ Ù…Ø+ØªØ±Ù…Û Ú©Ùˆ ÙˆÛ Ù¾Ù¹Ø®Ù†ÛŒØ§Úº دیں Ú©Û Ú¯Ú¾Ú¯Ú¾ÛŒ بندھ گئی۔
رات بھر میں Ù†Û’ ان تمام جملوں Ú©Û’ جواب سوچے جو ÙˆÛ Ú©Ûیں Ú¯Û’ اور میں Ù…Ù†Û ØªÙˆÚ‘ جواب دوں گی۔ بدقسمتی سے میری ساری Ù…Ø+نت رائیگاں گئی۔ پطرس Ù†Û’ ÙˆÛ Ø³ÙˆØ§Ù„ ÛÛŒ Ù†Û Ú©Ø¦Û’Û” اÙ٠میری Ø+ماقت! میں Ù†Û’ اپنے پروÙیسروں سے کبھی Ûار Ù†Û Ù…Ø§Ù†ÛŒÛ” میرے استاد میری Ù…Ù†Û Ø²ÙˆØ±ÛŒ سے Ú†ÙˆÚ©Ù†Û’ رÛتے تھے۔ میری کئی استانیاں کلاس میں آنسو بھر لاتیں۔ ÛŒÛ Ù…ÛŒØ±Ø§ خاندانی ÙˆØ±Ø«Û ÛÛ’ اور مجھے اس پر بڑا ناز تھا۔ مگر اس دن اØ+ساس کمتری بے طرØ+ بھوت بن کر گلا دبوچنے لگا ۔میں Ù†Û’ پطرس Ú©ÛŒ زندگی میں کبھی کسی سے ان اØ+ساسات کا ذکر Ù†Û Ú©ÛŒØ§Û” کوئی دل پر چھری رکھ دیتا۔ تب بھی Ù†Û Ú©Ø±ØªÛŒÛ” کسی Ù†Û’ بچپن میں مجھے Ûوّا بن Ú©Û’ ڈرانے Ú©ÛŒ کوشش کی، تو Ù†Û’ اس Ûوّے Ú©ÛŒ پنڈلی Ú©ÛŒ بوٹی اتارلی تھی اور بجائے ڈرنے Ú©Û’ ڈرانے والے Ú©ÛŒ چیخیں Ù†Ú©Ù„ گئی تھی۔ مگر پطرس Ú©Û’ Ûوّے Ù†Û’ مجھے Ûولا Ûولا کر شل کردیا۔ میں Ù†Û’ اپنے لباس Ú©Û’ بارے میں کبھی غور Ù†Ûیں کیا، مگر اس دن میں Ù†Û’ بڑے سوچ بچار Ú©Û’ بعد ایسی ساڑھی نکالی جس کا Ø°ÛÙ† پر کوئی دھندلا سا نقش بھی Ù†Û Ø±Û Ø¬Ø§Ø¦Û’ تا Ú©Û Ú©ÙˆØ¦ÛŒ Ø+ÙˆØ§Ù„Û Ù†Û Ø¯ÛŒØ§ جاسکے۔ Ûر Ø´Û’ مبÛÙ… Ûوجائے۔ پطرس Ú©Û’ سامنے دال تو Ú¯Ù„Û’Ú¯ÛŒ Ù†Ûیں صر٠غائب Ûوجانے والا ٹوپی Ù¾Ûننے ÛÛŒ میں عاÙیت ÛÛ’Û”
جب ریڈیو اسٹیشن جانے Ù„Ú¯ÛŒ تو دل سے دعا Ù†Ú©Ù„ÛŒ کاش پطرس بیمار پڑگئے ÛÙˆÚº یا میرے ÛÛŒ پیٹ میں درد اٹھ ائے۔ Ûسپتال Ùون کروادوں Ú©Û Ø¢Ø®Ø±ÛŒ وقت ÛÛ’Û” لعنت ÛÛ’ عصمت Ú©ÛŒ بچی تجھ پر پھر تو ÙˆÛ Ø¶Ø±ÙˆØ± Ûسپتھال عیادت Ú©Ùˆ آئیں Ú¯Û’Û” بیگم اب تو مرنے میں بھی رÛائی Ù†Ûیں، کاندھا دینے تو ÙˆÛ Ø¢ÛÛŒ Ù¾Ûنچیں Ú¯Û’Û” پھر میری چغتائی خون للکارا۔ میرے سکڑدادا Ù†Û’ کھوپڑیوں کا مینار چنوا کر اس پر بیٹھ کر Ø®Ø§ØµÛ ØªÙ†Ø§ÙˆÙ„ Ùرمایا تھا، اور میں ایک Ø+قیر پطرس Ú©ÛŒ دÛشت میں Ùنا Ûوئی جارÛÛŒ ÛÙˆÛ” ایسا بھی کیا ÛÛ’Û” ٹانگ کھینچیں تو اپنی ازلی بدزبانی پر اتر آنا مزاج ٹھکانے آجائیں Ú¯Û’ Ø´Ø§Û ØµØ§Ø+ب Ú©Û’! لیجئیے بسم الله ÛÛŒ غلط Ûوئی۔ ریڈیو اسٹیشن Ú©Û’ دÙتر میں Ù¾Ûنچی، تو کاغذوں پر سر جھکائے بیٹھے تھے۔
"آداب عرض!"
"گڈمارننگ"۔ جواب ملا۔
"ا٠بور" میں Ù†Û’ سوچا۔ اب Ùراٹے Ú©ÛŒ انگلش کا رعب ڈالیں Ú¯Û’Û” ÙˆÛ Ø¬Ú¾Ú©Û’ تھے۔ میں Ù†Û’ غور سے Ù…Ø¹Ø§Ø¦Ù†Û Ø´Ø±ÙˆØ¹ کردیا۔ "صورت تو Ú©Ú†Ú¾ Ø²ÛŒØ§Ø¯Û ØªÙˆÙ¾ Ù†Ûیں" میں Ù†Û’ سوچا۔ سیدھی سادھی سانولی سلونی Ø´Ú©Ù„ ÛÛ’ مگر تصویر سے Ù†Ûیں ملتی۔ قطعی مختلÙ!
"کتنے دن قیام رÛÛ’ گا؟" میں Ù†Û’ انÛیں کاغذوں میں لوٹ پوٹ دیکھ کر پوچھا۔ سوچا میں Ù¾ÛÙ„Û’ بولنا شروع کردوں تو Ù¾Ûلا وار میرا رÛÛ’ گا۔ مگر دل ڈوبنے لگا Ú©Û Ù¾Ûلا وار Ù†Ûایت پھسپھسارÛا۔ ضرور اس Ø¬Ù…Ù„Û ÛÛŒ دھجیاں اڑیں Ú¯Û’Û”
"جی؟" ÙˆÛ Ú©Ø§ØºØ°ÙˆÚº میں سے ابھرے، "میرا ØªØ¨Ø§Ø¯Ù„Û Ø¨Ù…Ø¨Ø¦ÛŒ کا Ûوگیا ÛÛ’"Û”
ÛŒÛ Ù„ÛŒØ¬Ø¦Û’ØŒ سنا تھا کسی میٹنگ Ú©Û’ Ø³Ù„Ø³Ù„Û Ù…ÛŒÚº بمبئی آئے Ûیں بÛت جلد جانے والے Ûیں، ÛŒÛ Ø¢Ø®Ø± مجھ سے جھوٹ کیوں بولا۔ کوئی اس میں بھی چال Ûوگی۔ اس سے قوبل کوئی ار سوال جھاڑتی Ùرمانے Ù„Ú¯Û’ØŒ "چلئے"
"Ø®Ø§ØµÛ Ø¨ÙˆØ±ÛÛ’" میں Ù†Û’ Ø¨Ù¹ÙˆÛ Ø§Ù¹Ú¾Ø§ کر پیچھے چلتے Ûوئے پوچھا۔ ÛŒÛ Ø¯Ø§Ù†Øª کیوں بار بار نکوستا ÛÛ’ØŸ سارا ریڈیو اسٹیشن گھما کر ایک کمرے میں مجھ سے جانے Ú©Ùˆ Ú©Ûا۔ سامنے میز پر ایک اونچے کاغذوں Ú©Û’ ڈھیر Ú©Û’ سامنے ایک عقاب Ú©ÛŒ سی صورت کا گوراچٹا پٹھان بیٹھا Ûوا تھا۔ طوطے جیسی لمبی ناک، بھاری بھاری آنکھیں
"آیئے آیئے ....... معا٠کیجئے گا میری میٹنگ ذرا لمبی کھنچ گئی۔"
"اوÛ" میں Ù†Û’ سانولے سلونے پطرس Ú©Û’ جانے Ú©Û’ بعد Ú©Ûا "میں سمجھ تھی آپ ÙˆÛ Ûیں"Û”
"کیا؟..... میں ÙˆÛ ÛÙˆÚº ...... آپ میری Ûتک کررÛÛŒ Ûیں۔ ÙˆÛ Ø¨Ø±Ø§ مان گئے۔" ÙˆÛ Ù„Ú©Ø´Ù…Ù†Ù† Ûیں اور میں قطعی ÙˆÛ Ù†Ûیں ÛÙˆÚºÛ” "ایک جھٹکے سے سارا اعصابی دباؤ بھک سے اڑ گیا۔ ایرکنڈیشن کمرے میں ایک دم مجھے نیند سی آنے لگی۔ یاخدا ناØ+Ù‚ میں Ù†Û’ اس شخص Ú©ÛŒ اپنی جان پر اتنا Ûیبت سوار کرلی۔ ایسا معلوم Ûوا میں انÛیں برسوں سے جانتی ÛÙˆÚºÛ” ÛŒÛ Ø¹Ù‚Ø§Ø¨ تو قطعی ÙØ§Ø®ØªÛ Ù†Ú©Ù„ÛŒÛ” پھر جو باتوں کا ریلا چلا ÛÛ’ تو میرا سارا ریÛرسل بے کار Ûوگا۔ سارے تراشے Ûوئے جملے اڑ Ú†Ú¾Ùˆ Ûوگئے۔ تاج Ù…Ø+Ù„ Ûوٹل Ù¾Ûنچتے Ù¾Ûنچتے دو چار مسائل پر اختلا٠بھی Ûوگیا میری خیال میں پطرس Ú©ÛŒ خاصیت ÛŒÛÛŒ تھی Ú©Û Ø§Ù† سے ملتے ÛÛŒ برسوں Ú©ÛŒ ملاقات کا اØ+ساس Ûونے لگتاتھا۔ ÛŒÛ Ù…Ø¹Ù„ÙˆÙ… کر Ú©Û’ Ø+یرت بھی Ûوئی اور مسرت بھی Ú©Û Ø§Ù†ÛÙˆÚº Ù†Û’ اس زمانے Ú©Û’ Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ والوں کا ایک ایک Ù„Ùظ بڑی دل چسپی سے پڑھا تھا، اور یاد رکھا تھا۔ انÛیں جملے جملے ازبر تھے۔ شعر تو میں Ù†Û’ بÛت لوگوں Ú©Ùˆ یاد رکھتے سنا ÛÛ’ مگر نثر صر٠پطرس Ú©ÛŒ زبان سے اسی طرØ+ سنی۔
"میرے کمرے میں چلنے پر کوئی اعتراض؟" بڑے بے تکلÙÛŒ سے پوچھا۔
"کیوں؟"
"ٹھیک، آیئے۔"
ÛŒÛ Ø§Ø·Ù„Ø§Ø¹ مجھے بعد میں ملی، Ú©Û Ù¾Ø·Ø±Ø³ Ù†Ûایت لوÙر انسان Ûیں۔ اس وقت مجھے Ø§Ù†Ø¯Ø§Ø²Û Ù†Ûیں تھا Ú©Û Ù…ÛŒØ±ÛŒ ڈھیٹ Ú©Ûانیوں Ú©ÛŒ ÙˆØ¬Û Ø³Û’ لوگ مجھے بھی بڑی نٹ Ú©Ú¾Ù¹ سمجھتے پیں۔
میں Ù†Ûایت بے تکلÙÛŒ سے آرام کرسی پر دراز لیمونیڈ پیتی رÛی۔ ÙˆÛ Ù¾Ù„Ù†Ú¯ پر پھیلے Ù¹Ú¾Ù†ÚˆÛŒ Ù¹Ú¾Ù†ÚˆÛŒ بیئر Ú©ÛŒ چسکیاں لیتے رÛÛ’ اور دوقینچیاں اپنی پوری رÙتار سے چلتی رÛیں۔ باتوں Ú©Û’ طوÙان میں بار بار ÛŒÛ Ù…Ø+سوس کر Ú©Û’ سخت Ú©ÙˆÙت Ûوتی رÛÛŒ Ú©Û Ù¾Ø·Ø±Ø³ کا Ù…Ø·Ø§Ù„Ø¹Û Ø§ÙˆØ± مشاÛØ¯Û Ø§ØªÙ†Ø§ وسیع ÛÛ’ Ú©Û Ø¨Ø±Ø³ÙˆÚº کھر Ù„ÛŒ گھونگی پر تل کر عبث Ù†Û ÛÙˆ سکے Ú¯ÛŒ اس لئے کیوں Ù†Û Ù‚Ù†ÙˆØ·ÛŒØª پر اتر آَؤں اور اپنی خاندانی کج بØ+Ø«ÛŒ کام میں لاؤں Ú©Û Ø¨Ú‘Û’ بڑے سورماؤں پر آزمایا Ûوا Ù†Ø³Ø®Û ÛÛ’Û” جÛالت اور Ú©Ù… مائیگی Ú©Û’ لئے بÛترین ڈھال۔
مگر بÛت جلد معلوم Ûوگیا Ú©Û ØºÙ†ÛŒÙ… Ù†Ûایت چوکس ÛÛ’Û” مجھ سے کئی سال پرانا اکھاڑے کا کج بØ+Ø« ÛÛ’Û” تیرکی نوک بڑی چابک دستی سے واپس لوٹادیتا ÛÛ’Û” اس میدا میں بھی Ú©Ú¾Ù„ÛŒ مار سے بÛتر ÛÛ’ اسے بزرگ مان کر Ûتھیار ڈال دوں۔ شاگرد بن کر مسکین صورت سے سوالات کروں اور ÛŒÛ Ù„Ú©Ú†Ø± جھاڑ کر Ø+لق خشک کرے۔ موقع پاؤں تو ÚˆÙ†Ú© ماردوں۔ مگر ØªÙˆØ¨Û Ú©ÛŒØ¬Ø¦Û’ پطرس گھسے میں آنے والے آسامی Ù†Û ØªÚ¾Û’Û” میرے Ûر Ø°Ûین اور دقیق سوال میں Ù†Ûایت بھونڈے پن سے "Ûٹایئے بھی ÛŒÛ Ø¨ÙˆØ± Ù†Ú¯ باتیں" Ú©ÛÛ Ú©Ø± میرا خوب جی جلایا۔
میں Ù†Û’ Ú†Ú‘ Ú©ÛŒ ان Ú©ÛŒ Ûر بات Ú©Ùˆ الٹ کر بØ+Ø« شروع کردی۔ انÛÙˆÚº Ù†Û’ میرے Ûر Ù¾Ø³Ù†Ø¯ÛŒØ¯Û Ø´Ø§Ø¹Ø± Ú©Ùˆ اور ادیب Ú©Ùˆ جاÛÙ„ اور الو Ú©Ûدیا۔ میں Ù†Û’ بھی کلس Ú©ÛŒ Ù†Ûایت تÛذیب اور Ø³Ù„ÛŒÙ‚Û Ø³Û’ انÛیں اØ+مق Ú©Ûدیا۔ جس پر ÙˆÛ Ø¨Û’ تØ+Ø§Ø´Û Ûنسے۔ میں Ù†Û’ پھر Ú†Ú‘ کر ان کا ساتھ دیا، گوجی ÛŒÛ Ú†Ø§Û Ø±Ûا تھا سرÛانے رکھا Ûوا لیمپ اسٹینڈ ان Ú©Û’ سر پر گرپڑے اور میں Ûنستی رÛÙˆÚºÛ”
"ارے ڈیڑھ بج گیا" Ú¯Ú¾Ú‘ÛŒ دیکھ کر ÙˆÛ Ø¬Ù„Ø¯ÛŒ جلدی اپنا گلاس ختم کرنے Ù„Ú¯Û’Û” پھر بھاری بھاری آنکھوں سے میر طر٠ایسے دیکھا جیسے میں بالکل Ú©ÙˆÚ‘Ú¾ مغز ÛÙˆÚº اور پھر بےاختیار Ûنسنے Ù„Ú¯Û’Û” بالکل میرے بدذات بھائی چنو Ú©ÛŒ طرØ+Û” ایک دÙØ¹Û Ø§Ø³ Ú©Û’ چڑانے پر میں Ù†Û’ گال پر ایسا Ù¾Ù†Ø¬Û Ù…Ø§Ø±Ø§ تھا Ú©Û Ú†Ø±Ø¨ÛŒ Ù†Ú©Ù„ آئی تھی۔
"جلدی چلنا چاÛیے ÙˆØ±Ù†Û Ú©Ú¾Ø§Ù†Û’ Ù†Ûیں ملے گا۔" مطلع صا٠Ûوگیا اورÛÙ… Ù†Ûایت اطمینان سے ڈائننگ Ûال میں جا کر مینو Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’Û” "Ø§Ù ÛŒÛ Ùرنچ کھانوں Ú©Û’ نام مجھے بڑے گندے لگتے Ûیں۔" میں Ù†Û’ پھر جلانے Ú©ÛŒ کوشش کی۔ "سب کھانے ساڈین Ú©ÛŒ طرØ+ بدبوار اور لس سے معلوم Ûوتے Ûیں۔"اس Ú©Û’ بعد مچھلیوں، گھونگوں اور سپیوں پر بØ+Ø« Ûونی لگی۔ اب انھوں Ù†Û’ ایک دوسرا Ø·Ø±ÛŒÙ‚Û Ù†Ú©Ø§Ù„Ø§Û” Ûر بات پھر اتÙاق کرنے Ù„Ú¯Û’ جس پر Ú©ÙˆÙت دوگنی Ûوگئی۔ اور میں اس Ù†ØªÛŒØ¬Û Ù¾Ø± Ù¾ÛÙ†Ú†ÛŒ Ú©Û Ù¾Ø·Ø±Ø³ اتر جائیں تو دکÛÙ† جانے میں عاÙیت ÛÛ’Û” میں Ù†Û’ چاÛا ان Ú©ÛŒ تØ+ریروں Ú©Û’ بارے میں بات کروں مگر اس عرصے میں Ûماری تعلکاقات اتنے Ú©Ø´ÛŒØ¯Û Ûوگئے تھے Ú©Û ÙˆÛ Ø¨Ú¾Ú‘Ú© گئے اور ÛŒÛ Ø¨Ø¬Ø§ بھی تھا۔ اس وقت میں ان Ú©Ûانیوں Ú©ÛŒ تعری٠کر Ú©Û’ ان Ú©Û’ Ú†Ûرے پر آنے والی جھپکوں پر مسکرا کر جی ٹھنڈا کرنا Ú†Ø§Û Ø±ÛÛŒ تھی، مگر ÙˆÛ Ùوراً ادب Ú©ÛŒ Ù…Ø+ÙÙ„ سے چھلانگ مار پر کھانے پر آگئے۔ کاÙÛŒ Ø¨Ø¯Ù…Ø²Û Ú©Ú¾Ø§Ù†Ø§ تھا۔ اسٹو کچا تھا جیسے Ú†Ù…Ú‘Û’ چبارÛÛ’ ÛÙˆÚºÛ” اشارے سے بیرے Ú©Ùˆ بلاکر بڑی لجاجت سے بولے:Û”
"دوست ÛŒÛ Ø¨Ú©Ø±Ø§ تو سینگ ماررÛا ÛÛ’ کوئی مرا Ûوا جانور Ù†Ûیں پکار تمÛارے Ûاں۔" بیرا بے Ú†Ø§Ø±Û Ú©Ú¾Ø³ÛŒØ§Ù†Ø§ Ûوکر Ûنس دیا۔ اور جب ÙˆÛ Ù¾Ù„Ù¹ÛŒÚº اٹھا کر چالاگیا تو ایک دم سے بولے:Û”
"تم سے لکشمنن Ú©Ùˆ پطرس کیوں سمجھا؟" اگر گدھے Ú©Ùˆ پطرس سمجھ لیا Ûوتاتو مجھے قطعی شکایت Ù†Û Ûوتی۔ "مجھے مسکراتا دیکھ کر بولنے سے Ù¾ÛÙ„Û’ چلدی سے بولے" شاید گدھے Ú©Ùˆ شکایت Ûوتی۔" میں Ù†Û’ اتنی زور سے Ù¹Ú¾Ù¹Ú¾ مارا Ú©Û Ûال میں Ù…Ûذب لوگو بدبد کرتے کرتے ایک دم چونک کر دیکھنے Ù„Ú¯Û’Û” پطرس Ù†Û’ تادیبی نظروں سے مجھ دیکھا جیسے Ú©ÛÛ Ø±ÛÛ’ ÛÙˆÚº:Û”
"Ø¯Ø±Ù…ÛŒØ§Ù†Û Ø¯Ø±Ø¬Û Ú©ÛŒ چاردیواری میں پلی Ûوئی Ù„Ú‘Ú©ÛŒ تاج Ù…Ø+Ù„ Ûوٹل Ú©Û’ آداب سے کیسے واق٠Ûوسکتی ÛÛ’Û” اور ان کا خیال ٹھیک تھا۔ اس سے Ù¾ÛÙ„Û’ میں Ù†Û’ صر٠ایک دÙØ¹Û ØªØ§Ø¬ میں چائے Ù¾ÛŒ تھی۔ اس وقت تک ÛŒÛ Ù¾Ûلا اتنا شاندار Ûوٹل جسے صر٠دیکھنے Ú©Û’ لئے گئی تھی۔ تکلÙات، سجاوٹ اور صÙائی Ú©Ùˆ Ûمارے گھر میں Ù†Ûایت تØ+یقر Ú©ÛŒ نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ Ûمارے گھر میں کھانے Ú©ÛŒ میز تو تھی اور جب Ù†Ûایت غیر دلچسپ قسم Ú©Û’ Ù…Ûمان آتے تھے تب اس پر سلائی Ú©ÛŒ مشین، اچار Ú©ÛŒ برنیاں اور Ø¨Ú†Û Ú©Ø§ گڈولنا اتار Ú©ÛŒ تخت Ú©Û’ نیچے دوسرے کاٹھ کباڑ Ú©Û’ ساتھ چھپا دیا جاتا تھا۔ خاص Ù…Ûمانوں Ú©ÛŒ چادر بچھا کر Ú†Ù†ÛŒ Ú©ÛŒ پلیٹیں سجادی جاتی تھی۔ آپابڑے چاؤ میں آکر نپکن Ú©Û’ پھول بنا کر کلاسوں میں سنوار دیتیں۔ ÛÙ… لوگ اسے اØ+Ù…Ù‚Ø§Ù†Û Ø¨Ù†Ø§ÙˆÙ¹ اور بے کار Ú©ÛŒ زØ+مت سمجھ کر Ù†Ûایت تØ+قیر سے Ûنستے اور انÛیں چڑانے Ú©Ùˆ گلاس میں سے نپکن نکالے بغیر پانی بھر لیتے، آپا Ù…Ûمانوں Ú©Û’ سامنے Ûمارے جنگلی پن Ú©ÛŒ ÙˆØ¬Û Ø³Û’ Ø´Ø±Ù…Ù†Ø¯Û Ûوتیں تو بڑا لط٠آتا۔ ÛÙ… لوگ تو تانبے یا تام چینی Ú©ÛŒ رکابیوں میں کھانا Ù„Û’ کر بان Ú©ÛŒ چارپائی پر سینی رکھ کر بیٹھ جاتے۔ ذرا پلنگ Ú©ÛŒ آدوائیں ڈھیلی Ûوتی تو بڑا مزاآتا۔ کوئی موٹا آدمی بیٹھ جاتا تو سارا Ø´ÙˆØ±Ø¨Û Ú¯ÙˆØ¯ میں رس آتا۔ بان Ú©ÛŒ ڈھیلی چارپائی پر بیٹھ کر Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ Ø´ÙˆØ±Ø¨Û Ú©Ø§ سالن کھانا بھی ایک ÙÙ† ÛÛ’Û” جس میں Ûماری گھرانا ماÛر تھا۔
تاج Ù…Ø+Ù„ Ûوٹل میں کانٹے چھری سے کھانا کھاتے وقت میری کندھے انجانے بوجھ سے تھک گئے۔ اور چغنائیت Ú©Ùˆ سخت ٹھیس Ù„Ú¯ÛŒ اور مجھے Ùوراً اØ+ساس برتری Ûونے لگا۔ Ú©Ù… از Ú©Ù… اس میدان میں تو مجھے Ùوقیت Ø+اصل تھی۔ پطرس Ú©Ùˆ روز روز اسی طمطراق سے کھانا پڑتا Ûوگا۔ انÛÙˆÚº Ù†Û’ شاید کبھی کھاٹ پر بیٹھ کر آلو گوشست Ù†Ûیں کھایا Ûوگا۔ خاص کر جب Ú©Û Ø§Ø³ میں پڑوسی Ú©Û’ باغ سے چرا کر نیبو نچوڑا گیا ÛÙˆÛ” اس Ú©Û’ بعد بیرے Ù†Û’ پلیٹوں میں Ù†Û Ø¬Ø§Ù†Û’ کیا لا کر رکھ دیا۔ باتوں میں خیال ÛÛŒ Ù†Û Ø±Ûا۔ بڑے دھواں دھار طریقے پر کرشن چندر، بیدی، اور منٹو پر بØ+Ø« Ûونے Ù„Ú¯ÛŒ ۔ان کا خیال تھا تکل٠میں ان Ú©ÛŒ تعریÙیں کرتی ÛÙˆÚº تا Ú©Û Ù„ÙˆÚ¯ مجھے بڑا دریا دل سمجھیں اورمیں Ú©Ûتی تھی میں خدا Ú©ÛŒ بھی جھوٹی تعری٠نÛیں کروں گی۔ ان Ú©ÛŒ Ú©Ûانیاں میں Ù†Û’ تنقید نگار یا ایک Ú©Ûانی نگار Ú©ÛŒ Ø+یثیث سے انÛیں ایک انسان Ú©ÛŒ Ø+دیثت سے دل بÛلانے Ú©Ùˆ Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ Ûیں۔ Ú©Ú†Ú¾ بری بھی Ù„Ú¯ÛŒ Ûیں اور Ú©Ú†Ú¾ نشتر بن کر دل میں ترازو Ûوگئی Ûیں۔
"ÛŒÛ Ø¬Ø°Ø¨Ø§ØªÛŒØª ÛÛ’" انÛÙˆÚº Ù†Û’ رکھائی سے Ú©Ûا۔
"جذباتیت کیا Ûوتی ÛÛ’ØŸ" میں Ù†Û’ بھونڈے پن سے Ú©Ûا۔ ÙˆÛ Ø³Ù…Ø¬Ú¾Û’ بن رÛÛŒ Ûوں، Ø+Ø§Ù„Ø§Ù†Ú©Û ÛŒÛ Ø³ÙˆÙ„Û Ø³Ø§Ù„ Ù¾ÛÙ„Û’ Ú©ÛŒ بات ÛÛ’ اور واقعی میری سمجھ میں بÛت سے باتیں Ù†Ûیں آئی تھیں۔ میں Ù†Û’ بÛت سی باتوں Ú©Û’ نامعقول جواب دیئے۔ ان Ú©ÛŒ علمی بزرگی Ú©Û’ قائل Ûوتے Ûوئے بھی تسلیم Ù†Ûیں کیا تھا۔ میں Ù†Û’ ان سے ÛŒÛ Ø¨Ú¾ÛŒ Ù†Ûیں Ú©Ûا Ú©Û Ù…ÛŒÚº کب سے اور کتنی ان Ú©ÛŒ مختصرتØ+ریروں Ú©ÛŒ مداØ+ ÛÙˆÚºÛ” میں Ù†Û’ بÛت Ú©Ù… ان Ú©ÛŒ تعری٠میں Ú©Ûا۔ جو Ú©Ûا ÙˆÛ Ù†Ûایت بے رخی سے سنی ان سنی کرگئے۔ ان Ú©ÛŒ اپنی تخلیقات ان Ú©Û’ لئے اتنی اÛÙ… Ù†Ûیں تھی۔ Ú©Ù… سے Ú©Ù… مجھے تو ÛŒÛÛŒ Ø§Ù†Ø¯Ø§Ø²Û Ûوا Ú©Û ÙˆÛ Ø®ÙˆØ¯ پرست Ù†Ûیں۔
دو گھنٹے لنچ سے کھیلتے گزر گئے۔
"آپ ÚˆØ±Ø§Ù…Û Ú©ÛŒÙˆÚº لکھتی Ûیں؟" انÛیں اچانک بم گرانے میں بڑا مزا آتا تھا۔
"یونÛی۔" میں Ù†Û’ لنگڑا ساجواب دیا۔
"میری رائے میں تو آپ ڈرامے لکھنا Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیجئے۔ بڑے اوٹ پٹانگ Ûوتے Ûیں۔ کوئی ایکٹ چھوٹا کوئی لمبا۔ Ø³Ù„ÛŒÙ‚Û Ø³Û’ کتربیونت کرنے Ú©ÛŒ بجائے آپ انÛیں دانتوں سے کھسوٹتی Ûیں۔" ان Ú©ÛŒ بوجھل عقابی آنکھیں میں ایذارسانی Ú©ÛŒ لذات کا Ù†Ø´Û Ø§Ø¨Ú¾Ø±Ø¢ÛŒØ§Û”
جی چاÛا میز کا سارا کوڑا کرکٹ ان Ú©Û’ اوپر لوٹ دوں اور ÛŒÛ Ù¾Ù„Ù¹Ø³ Ú©Û’ مزے Ú©ÛŒ Ù¾ÚˆÙ†Ú¯ ان Ú©Û’ شاندار سوٹ پر لسٹر جائے۔ مگر Ù†Û’ جلدی سے بھڑکتے Ûوئے رÛوار Ú©ÛŒ لگامیں کھینچ لیں اور ایک گلاس ٹھنڈا پانی اتار Ú©ÛŒ Ù†Ûایت نرمی سے Ú©Ûا، "اچھا ....اب Ù†Ûیں Ù„Ú©Ú¾ÙˆÚº گی۔" انÛیں ناامیدی سی Ûوئی Ú©Û Ù…ÛŒÚº Ù†Û’ بØ+Ø« کیوں کاٹ دی۔
"مکالموں میں آپ Ú©Û’ کاÙÛŒ جان Ûوتی ÛÛ’Û”" اونھ، میں Ù†Û’ سوچا، ÛŒÛ Ù…ÛŒØ±Û’ مکالمے تھوڑے Ûوتے Ûیں گھر میں سب ایسے ÛÛŒ بولتے Ûیں، میں دوسری زبان سے Ú©Ûاں سے لاؤں۔
"برنارڈشا سے متاثر Ûیں؟"
"بے Ø+د، میں Ù†Û’ ایک ÚˆØ±Ø§Ù…Û Ù…ÛŒÚº برناڈشا Ú©Û’ ÛŒÛاں سے پورا کا پورا سین اڑالیا ÛÛ’ØŒ کیوں Ú©Û Ù…Ø¬Ú¾Û’ ÙˆÛ Ø³ÛŒÙ† بÛت پسند آیا تھا۔ اس کا Ø+ÙˆØ§Ù„Û Ø¨Ú¾ÛŒ Ù†Ûیں دیا مجھے اپنی آنے والی Ø°Ù…Û Ø¯Ø§Ø±ÛŒÙˆÚº کا اس وقت تک Ø§Ù†Ø¯Ø§Ø²Û Ù†Ûیں تھا۔ ÛŒÛ Ø®Ø¨Ø± Ù†Û ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û Ø§ÛŒÚ© دن "جواب داری" کرنا Ûوگی۔ اصل میں میں Ù†Û’ ÙˆÛ Ø³ÛŒÙ† ایک Ùلمی Ú©Ûانی Ú©Û’ لئے اڑایا تھا۔"
میں Ù†Û’ سوچا اس سے Ù¾ÛÙ„Û’ ÛŒÛ Ù…ÛŒØ±ÛŒ ٹانگ کھینچیں خود ÛÛŒ کیوں Ù†Û Ø³Ø± پھوڑلوں۔ "آپ بھی Ú©Û’ جردم جردم اور پی۔ جیوڈپاس سے متاثر Ûوئے ÛÙˆÚº Ú¯Û’Û”" میں Ù†Û’ Ú©ÛÛ ØªÙˆ دیا، لیکن اب سوچتی ÛÙˆÚº Ú©Û ØµØ±Ù Ø§ÛŒÚ© بات مشترک تھی، یعنی دونوں مزاØ+ نگار تھے،۔ شاید Ú†Ú‘ کر Ú©ÛÛ Ø¯ÛŒØ§ Ûوگا۔ ÙˆÛ Ù†Ûای Ûوشیاری سے ٹال گئے اور اشارے سے بیرے Ú©Ùˆ بلایا۔ بڑی پریشان صورت بناکر چاروں طر٠دیکھا۔
"معا٠کیجئے گا۔" بڑے ادب سے مجھ سے معذرت چاÛی، پھر سرگوشی میں بیرے سے Ú©Ú†Ú¾ Ú©Ûا۔ ÙˆÛ Ø¨Ú‘Û’ زور زور سے سرÛلانے لگا۔
"صاØ+ب آپ اطمینان رکھو، کوئی بات Ù†Ûیں۔" بیرے Ù†Û’ Ûمت بڑھائی۔
"Ù†Ûیں اگر کوئی اعتراض Ûوتو......" پھر سÛÙ… کر چاروں طر٠دیکھا۔
"آپ بولو صاب"
"منیجر صاØ+ب Ú©Ùˆ تو Ú©Ú†Ú¾"
"Ù†Ûیں صاØ+ب مینجر صاØ+ب Ú©Ùˆ کون بولے گا؟" ..... ÛÙ… Ú©Ùˆ بولو ....."
پطرس Ù†Û’ بڑی شکرگزاری سے اسے دیکھا۔ پھر بالکل کان Ú©Û’ پاس Ûونٹ Ù„Û’ جا کر بولے۔
"کاÙی۔"
"کاÙی؟" بیرا چکرایا۔
"Ûاں اور نمکین بسکٹ بھی۔" بیرامجسم سوال بناکبھی مجھے اور کبھی انÛیں دیکھنے لگا۔
"کسی Ú©Ùˆ کانوں کان Ù¾ØªÛ Ù†Û Ú†Ù„Û’ ..... شاباش"Û”
"Ù†Ûیں صاØ+ب اطمینان رکھو" ..... بھونچکا سا بیرا کاÙÛŒ لینے چلا گیا۔ جاتے جاتے اس Ù†Û’ Ø+یرت Ø²Ø¯Û ÛÙˆ کر پلٹ کر دیکھا جیسے Ú©Ûتا Ûو، دماغ تو سلامت ÛÛ’ Ø+ضور کا۔ پطرس Ù†Û’ Ù†Ûایت معین خیز انداز میں آنکھ ماری، بے Ú†Ø§Ø±Û Ú¯Ú¾Ú¯ÛŒØ§ کر Ûنسنے لگا۔
اور مجھے معلوم Ûوا پطرس مزاØ+ نگار ÛÛŒ Ù†Ûیں ان Ú©ÛŒ زندگی میں شرارت اور چلبلا پن ÛÛ’Û” ان Ú©ÛŒ زبان میں لطیÙÛ’ Ûیں اور برتاؤ میں Ûلکا پھلا پن ان Ú©Û’ طنز میں تیکھا پن ÛÛ’Û” انÛÙˆÚº Ù†Û’ زندگی کا تنگ Ùˆ تاریک رخ Ù†Ûیں دیکھا۔ ÙˆÛ Ø§Ù„Ø¬Ú¾Ù†ÙˆÚº کا شکار Ù†Ûیں تھے، آزاد اور زندگی Ú©Û’ قائل تھے۔ ÛŒÛÛŒ ÙˆØ¬Û ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û ÙˆÛ Ù†Ø¦Û’ Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ والوں Ú©ÛŒ تلخی اور جھنجھلاÛÙ¹ سے مکدر سے Ûوجاتے تھے۔
جسم Ùروشی اور Ø+رامی بچوں Ú©Û’ سوال Ú©Ùˆ ÙˆÛ Ú©Ú†Ú¾ Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ù…Ûذب Ù†Ûیں سمجھتے تھے۔ ان دنوں میں کسی سے بھی ملتی تھی، "Ù„Ø+اÙ" کا ذکر Ú†Ú¾Ú‘ جاتا تھا۔ میری Ú†Ú‘ سی Ûوگئی۔ پطرس Ù†Û’ Ù„Ø+ا٠ÛÛŒ Ù†Ûیں اور بھی جنسی الجھنوں پر کوئی بØ+Ø« Ù†Û Ú©ÛŒÛ”
"میں اپنی Ú©Ûانیوں کا انگریزی میں ØªØ±Ø¬Ù…Û Ú©Ø±Ø§Ù†Ø§ چاÛتی ÛÙˆÚºÛ”" میں Ù†Û’ انÛیں ذرا رسانیت Ú©Û’ موڈ میں پاکر Ú©Ûا۔
"کیوں؟" ÙˆÛ Ø¨Ú‘Û’ کھرے پن سے بولے، "آپ Ú©ÛŒ Ú©Ûانیاں ØªØ±Ø¬Ù…Û Ù†Û ÛÙˆÚº Ú¯ÛŒ تو کیا انگریزی ادب غریب Ø±Û Ø¬Ø§Ø¦Û’ گا یا شاید آپ Ú©Û’ خیال ÛÛ’ØŒ انگریزی کا Ø¬Ø§Ù…Û Ù¾ÛÙ† Ú©Û’ تØ+ریر Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ø¨Ù„Ù†Ø¯ Ûوجائےگی۔"
پھر جی جلا۔ ایک دم سے ÛŒÛ Ø§Ù†Ø´Ø§Ù† اتنا خشک کیوں Ûوجاتا ÛÛ’Û” "Ù†Û’Ûیں، ÛŒÛ Ø¨Ø§ØªØ± تو Ù†Ûیں اصل میں انگریزی میں چعپÛÙ†Û’Ø+ سے پیسے Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ù…Ù„ØªÛ’ Ûیں۔ اØ+مد علی Ù†Û’ ایک Ú©Ûانیت Ú©Û’ مجھے چعارع نبونڈ دلوائے تھے۔"
Ú©Ú†Ú¾ لاجواب سے Ûوگئے اور مسکرانے Ù„Ú¯Û’ØŒ "Ùکر Ù†Û Ú©ÛŒØ¬Ø¦Û’ ایک دن آئے گا لوگ خود ÛÛŒ اس Ø·Ø±Ù ØªÙˆØ¬Û Ø¯ÛŒÚº Ú¯Û’Û”" پھر میں Ù†Û’ Ùکر Ù†Û Ú©ÛŒÛ”
ایک ایک لمØ+Û Ûر لط٠گزرا۔ گھنٹوں باتیں کرنے Ú©Û’ بعد بھی ابھی زنبیل میں بÛت Ú©Ú†Ú¾ تھا۔ ÙˆÛ Ù…Ø¬Ú¾Û’ چرچ گیٹ اسٹیشن تک Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ گئے۔ میں ان دنوں ملاڈ رÛتی تھی۔ اس Ú©Û’ بعد انÛÙˆÚº Ù†Û’ میرے بارے میں ایک مضمون لکھا جو میں Ù†Û’ Ù†Ûیں پڑھا، لوگوں سے Ù¹Ú©Ú‘Û’ سنے۔ ایک بار دÛÙ„ÛŒ جانا Ûوا تو دعوت میں بلایا۔ ÙˆÛاں Ùیض بھی تھے۔ مگر بڑی Ú†Ù¾ چاپ سی Ù…Ø+ÙÙ„ تھی۔ جس کا میرے دماغ پر دھندلا سا بھی عکس Ù†Ûیں۔ Ú©Ú†Ú¾ سیاست Ú©ÛŒ باتیں Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ûوئیں جو میرے پلّے Ù†Ûیں پڑیں۔
سال بھی بعد میں Ù†Û’ نوکری سے استعÙادے دیا۔ شاÛد Ú©ÛŒ نوکری بھی Ú©Ú†Ú¾ ÚˆÚ¾Ù„ مل سے نظر آنے لگی۔ میں Ù†Û’ پھر نوکری کا Ø§Ø±Ø§Ø¯Û Ú©ÛŒØ§Û” Ù†Û Ø¬Ø§Ù†Û’ کیا دل میں سمائی پطرس Ú©Ùˆ Ù„Ú©Ú¾ مارا Ú©Û Ù†ÙˆÚ©Ø±ÛŒ چاÛیے Ú©Ûیں بھی ملے۔ چار پانچ سو سے Ú©Ù… میں گزر Ù†Ûیں گی۔ ÛÙØªÛ Ø¨Ú¾Ø± Ú©Û’ اندر چھسو روپے Ú©ÛŒ نوکری Ù…Ø¹Û ØªÙ‚Ø±Ø± Ú©ÛŒ خط Ú©Û’ مل گئی۔ اس Ø¹Ø±ØµÛ Ù…ÛŒÚº مجھے Ùلم کا کام مل گیا تھا اور شاÛد Ú©Ùˆ بھی ڈائرکشن مل گیا۔ میں Ù†Û’ پطرس Ú©Ùˆ بڑي شرمندگی کا خط لکھا۔ معاÙÛŒ مانگی۔
پھر ملک تقسیم Ûوگیا۔ جاگیریں بٹیں، زبان بٹی، ادب بٹا اور ادیبوں کا بھی بٹوارا Ûوگی۔ آدھا Ú©Ù†Ø¨Û ÛŒÛاں آدھا ÙˆÛاں چلاگیا۔ پطرس ادب Ú©ÛŒ دنیا سے سیاست Ú©Û’ آسمان پر Ù¾ÛÙ†Ú† گئے۔
مگر نقوش میں ان کا ایک خط Ù¾Ú‘Ú¾ کر نجانے کیوں Ù…Ø+سوس Ûوا ..... پطرس دور جاکر بھی پاس ÛÛŒ Ú©Ú¾Ú‘Û’ Ûیں۔ آج ÛÛŒ میں Ù†Û’ "مضامین پطرس خریدے ÛÛ’ØŒ Ù¾Ú‘Ú¾ رÛÛŒ ÛÙˆÚºÛ” Ù¾Ú‘Ú¾ کر پلنگ سے نیچے گرنے Ú©ÛŒ نوبت تو Ù†Ûیں آئی مگر میرے دل Ùˆ دماغ Ú©ÛŒ تکان سی اتررÛÛŒ ÛÛ’Û” ÙˆÛ Ù‚Ù„Ù… جو تھکے Ûوئے دماغوں Ú©Ùˆ ایک لمØ+Û Ú©Û’ لئے بھی Ù…Ûلت بخش دے خاموش Ûوچکا، مگر دور میرے تخیل میں دو بھاری بھاری غلاÙÛŒ آنکھیں آج بھی بے Ø³Ø§Ø®ØªÛ Ù…Ø³Ú©Ø±Ø§Ø±ÛÛŒ Ûیں
Û”"