بیشک اللہ تعالی کے دو نور ہیں:
۱- ایسا نور جس سے وہ ہدایت دیتا ہے، ۲- وہ نور جو اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اسی طرح اُس کے لیے دل میں بھی دو آنکھیں ہیں: ۱-بصیرت کی آنکھ جو کہ علم الیقین ہے۔ ۲- دوسری آنکھ جو کہ عین الیقین ہے۔ لہذا بصیرت کی آنکھ (یعنی علم الیقین) اس نور سے دیکھتی ہے جس سے وہ ہدایت دیتا ہے۔ اور عین الیقین (یعنی دوسری آنکھ) اُس نور سے دیکھتی ہے جو اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے﴾ (النور : ۳۵) یہی نور الیقین ہے۔ اور دوسرے نور کے بارے میں فرمایا: ﴿اور تمہارے لیے نور بنایا جس سے تم چلتے ہو﴾ (الحدید : ۲۸) پس جب وہ نور جس سے وہ ہدایت دیتا ہے اُس نور سے جو اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے جڑتا ہے تو انسان زمین اور آسمانوں کی ملکوت کو دیکھتا، اور تقدیر کے راز کا مشاہدہ کرتا ہے کہ یہ مخلوقات میں کیسے کنڑول رکھے ہوئے ہے اور یہ اللہ کا ہی کہنا ہے: ﴿نور علی نور﴾ (النور : ۳۵)
تدبیرات الہیہ از شیخ اکبر ابن العربی