چور سپاھی Ú©Û’ کھیل Ú©ÛŒ طرØ+ یہ بلی چوہے کا کھیل عجیب سی معصومیت یا شاید سنگین سی کمینگی پہ مبنی ہوتا ہے Û”

بلی جب چوہے کو اپنے گھیراؤ میں لے کر ہلکے پھلکے پنجوں اور نرم نرم دانتوں کا مناسب استعمال کر لیتی ہے ۔

تو پھر چیزا لینے Ú©ÛŒ خاطر اسے آزاد کشمیر Ú©ÛŒ طرØ+ آزاد Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیتی ہے Û” Û” Û” Û” Û” Û”

Ø+واس باختہ ØŒ نیم مردہ چوہا دُم دبائے ØŒ دَم سادھے دُبکا سا پڑا رہتا
ہے ۔

بلی کمینی بظاھر بے دھیانی ، لا غرض سست سی پڑ کر ، اونگا لینے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چوہا سمجھتا ہے کہ بلی چونکہ سو چوہے کھا کر Ø+اجن ØŒ نمازن ہو گئی ہے بس ذرا اپنی فطرت عادت سے مجبور ہو کر مجھ سے چھیڑ خانی کر بیٹھی Û”

اب پڑی توبہ استغفار کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لہٰذا میں چلتا ہوں اب وہ نیواں نیواں ہو کر کھسکنے سوچتا ہے کہ اس ظالم کے خونیں پنجوں سے قاتل ناخن خودبخود باہر ابل آتے ہیں ۔

بقول استاد بہزاد ۔ ۔ ۔ ۔

" منزل کے لئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے "

چوہے Ú©ÛŒ جائے پناہ سامنے ہوتی ہے وہ چشم زدن میں وہاں پہنچ کر اس Ú©Û’ دستبرد سے Ù…Ø+فوظ ہو سکتا ہے Û”

جسم میں اینٹھا لے کر جست بھرنے کی تیاری کرتا ہے ۔

بلی " بوہے باریاں تے نالے کنداں ٹپ کے، آواں گی ہوا بن کے "

الاپتی ہوئی اس کے بل کے سامنے اسی مراقبے کی صورت بیٹھی ہوتی ہے ۔

بس وہ ذرا ورزش اور دل Ù„Ú¯ÛŒ Ú©ÛŒ خاطر اسے اپنی اگلی ٹانگوں Ú©Û’ Ø+صار میں Ù„Û’ کر نوکیلے پنجوں سے گدگدی کرتی ہے Û”

ہلکی پھلکی چوما چاٹی کر کے پھر اسے آزاد کر دیتی ہے ۔

بس اسی بار بار دہرائے گئے ڈرامے کو چوہے بلی کا کھیل کہتے ہیں-

انجام کار چوہا بے چارہ کئی ایک موتوں کا سودا چکھ کر بلی کے پیٹ میں آسودہ خاطر ہوجاتا ہے-

بابا Ù…Ø+مد ÛŒØ+ییٰ خان، "کاجل کوٹھا " صفØ+ہ 497