سعادت Ø+سن منٹو Ú©ÛŒ سدا بہار تØ+ریروں سے انتخابِ چند

’’وہ کالے تمباکو والا پان آہستہ آہستہ چبا رہا تھا اور سوچ رہا تھا۔ پان کی گاڑھی تمباکو ملی پیک اس کے دانتوں کی ریخوں سے نکل کر اس کے منہ میں ادھر ادھر پھسل رہی تھی اور اسے ایسا لگتا تھا کہ اس کے خیال دانتوں تلے پس کر اس کی پیک میں گھل رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اسے پھینکنا نہیں چاہتا تھا۔
_______________________________________

’’چلتے چلتے ایک لنگڑے ØŒ کتے سے اس Ú©ÛŒ ٹکرہوئی۔ اس Ù†Û’ اس خیال سے کہ شاید اس کا پیر Ú©Ú†Ù„ دیا گیا ہے ’’چائوں‘‘ کیا اور پرے ہٹ گیا اور وہ سمجھا کہ سیٹھ Ù†Û’ اسے پھر گالی دی ہے …گالی…گالی ٹھیک اسی طرØ+ اس سے الجھ کر رہ گئی تھی، جیسے جھاڑی Ú©Û’ کانٹوں میں کوئی کپڑا وہ جتنی کوشش اپنے آپ Ú©Ùˆ چھڑانے Ú©ÛŒ کرتا تھا، اتنی ہی زیادہ اس Ú©ÛŒ روØ+ زخمی ہوتی جارہی تھی۔‘‘ ’
_________________________________________

’یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب وغریب تھی۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑا خراب ہوگیا ہو۔‘‘ ’’قانون کا قفل صرف طلائی چابی سے کھل سکتا ہے …مگر ایسی چابی ٹوٹ بھی جایا کرتی ہے۔ ‘‘
__________________________________________

’’سورج نکلنے سے پہلے ساکت وصامت بشن سنگھ Ú©Û’ Ø+لق سے ایک فلک شگاف چیخ Ù†Ú©Ù„ÛŒ ادھر ادھر Ú©Û’ کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا اوندھے منہ لیٹا ہے Û” ادھر خاردار تاروں Ú©Û’ پیچھے ہندوستان تھا… ادھر ویسے ہی تاروں Ú©Û’ پیچھے پاکستان ØŒ درمیان میں زمین Ú©Û’ اس Ù¹Ú©Ú‘Û’ پر جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔‘‘