محبّت کیا ہوتی ہے ".....سلطان آدم ابھی شاہ پری کے اس انتہایی غیر متوقع سوال سے پیدا ہونے والی خاموشی کے سایوں میں سے اپنے لئے راستہ بنا نے کی کوشش کر ہی رہا تھا کے ایک پرسرار آواز کے ساتھ
کھڑکی کے شیشے سے ٹکرانے والی ہوا گزیدہ ابابیل نے کمرے کی ہر شے کو یکدم اپنے احساس کی گرفت میں لے لیا - سلطان آدم، شاہ پری، گلدانو میں سجے پھول ، جنوبی دیوار پی لگی پینٹنگ میں سمندری طوفان میں گھری ہویی کشتی ،
آتشدان میں سرگوشیاں کرتی آگ، سب کچھ ہی کھڑکی کے شیشے پر ابابیل کے بارش سے بھیگتے عکس کی رازداری کا حصہ بن گیا تھا.

طوفان باد و باران میں "محبّت کیا ہوتی ہے" کے سوالیہ دھاگے میں الجھی ہویی زخمی ابابیل کو ایک ناقابل ے فراموش لمحے میں ڈھلتے ہوۓ محسوس کر کے وہ بولا " محبّت کسی طوفانی موسم میں ابابیل کا اچانک کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا جانا ہے "
یہی محبّت ہے " سلطان آدم نے ابابیل کی پر چھایوں میں شاہ پری کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی - فنا ہوجا نا- لمبی اڑان کے بعد اپنی طرف واپس لوٹ آنا اپنے آپ کو پہچان لینا- سفر کی انتہا پر مکمل آزادی اور پھر اپنے عکس کی تلاش میں بے رحم
ہوا سے لڑتے ہوۓ کھڑکی سے ٹکرا جانا - محبّت کے یہ ناقابل تسخیر لمحے پھولوں کی اس فصل کے بیج ہیں جو محبّت کی یادگاروں پر خود بہ خود اگ پڑتے ہیں.

مظہر السلام کی کتاب " محبّت مردہ پھولوں کی سمفنی سے ایک اقتباس