ان کا ہر جملہ نہیں سے شروع ہوتا تھا ۔

ایک دن " کانپور " میں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی ۔

میرے منہ سے نکل گیا کہ " آج بڑی سردی ہے " بولے نہیں " کل اس سے زیادہ پڑے گی "۔

وہ چچا سے پھوپا بنے اور پھوپا سے خسر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لیکن مجھے آخر وقت تک نگاہ اٹھا کر بات کرنے کی جسارت نہ ہوئی ۔

کسی زمانے میں راجپوتوں اور عربوں میں Ù„Ú‘Ú©ÛŒ Ú©ÛŒ پیدائش Ù†Ø+وست اور قہرِ الٰہی Ú©ÛŒ نشانی تصوّر Ú©ÛŒ جاتی تھی Û”
اُن کی غیرت یہ کیسے گوارا کر سکتی تھی کہ ان کے گھر بارات
Ú†Ú‘Ú¾Û’ Û”
داماد کے خوف سے وہ نوزائیدہ لڑکی کو گاڑ آتے تھے ۔

قبلہ اس ÙˆØ+شیانہ رسم Ú©Û’ خلاف تھے Û”

وہ داماد Ú©Ùˆ زندہ گاڑ دینے Ú©Û’ Ø+Ù‚ میں تھے Û”


گچھی گچھی مونچھیں جنہییں گالی دینے سے پہلے اور
بعد میں " تاؤ " دیتے تھے ۔

آخری زمانے میں بھووں کو بھی تاؤ دینے لگے ۔

گٹھا ہوا کسرتی بدن ململ کے کرتے سے جھلکتا تھا ۔

چنی ہوئی آستین اور اس سے بھی مہین چنی ہوئی دو پُلی ٹوپی ۔

گرمیوں میں خس کا عطر لگاتے ۔

کیکری کی سلائی کا چوڑی دار پاجامہ ۔

چوڑیوں کی یہ کثرت کہ پاجامہ نظر نہیں آتا تھا ۔

دھوبی الگنی پر نہیں سُکھاتا تھا ۔

علیØ+دہ بانس پر دستانے Ú©ÛŒ طرØ+ چڑھا دیتا تھا Û”

آپ رات کے دو بجے بھی دروازہ کھٹکھٹا کر بلائیں تو چوڑی دار میں ہی بر آمد ہونگے ۔

واللہ! میں تو یہ تصور کرنے کی بھی جرائت نہیں کر سکتا کہ دائی نے انہیں چوڑی دار کے بغیر دیکھا ہوگا ۔

بھری بھری پنڈلیوں پر خوب کھبتا تھا ۔

فرماتے تھے داغی لکڑی بندے نے آج تک نہیں بیچی ۔ لکڑی اور داغ دار ؟ داغ تو دو ہی چیزوں پر سجتا ہے دل اور جوانی ۔

از مشتاق اØ+مد یوسفی آب Ú¯Ù… صفØ+ہ 32