دادی اماں
________

پرانے زمانے کی بات ہے جب میں بچہ تھا۔ ان دنوں دادی اماں نوے بیانوے کی ہوں گی۔ وہ بیشتر وقت اپنے کمرے میں ایک تخت پر بیٹھی رہتی تھیں۔ یہ تخت ایک کھڑکی کے پاس تھا جس پر جائے نماز بچھی ہوتی تھی۔ اس تخت کے دائیں ہاتھ کھڑکی تھی، بائیں ہاتھ ایک بہت بڑا لکڑی کا صندوق تھا جس پر ڈھکنا نہیں تھا۔ اس صندوق میں الم غلم چیزیں پڑی رہتی تھیں۔ دادی اماں بیٹھ کر نماز پڑھا کرتی تھیں۔

جب وہ نماز پڑھ رہی ہوتیں تو میں اکثر اپنے کمرے میں داخل ہو کر چلاتا۔ دادی اماں میرا گیند کہاں ہے؟ میں نے کبھی نہیں سوچا کہ دادی اماں نماز پڑھ رہی ہیں۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوجائیں تو گیند کی بات کروں۔ دادی اماں میرا گیند۔ دادی اماں میرا گیند۔ سجدے میں جانے سے پہلے دادی اماں کانی آنکھ سے صندوق کی طرف دیکھتیں جہاں گیند رکھا ہوتا پھر وہ جب سجدے میں جاتیں تو بایاں ہاتھ صندوق میں ڈال کر گیند اٹھالیتیں اور سجدے سے اٹھ کر وہ گیند میری طرف پھینک دیتیں۔

Ù…Ø+Ù„Û’ Ú©ÛŒ بڑی بوڑھیاں دادی اماں Ú©ÛŒ اس عادت پر ہنسا کرتی تھیں۔ دادی اماں سے مخاطب ہو کر کہتیں ’’نواب بی بی تو یہ کیا کرتی ہے۔ نماز پڑھتے ہوئے یکسوئی کا خیال نہیں رکھتی‘‘ اس پر دادی اماں ہاتھ چلا کر کہتیں ’’ صرف اس Ú©ÛŒ نماز ہی نہیں اور کام بھی ضروری ہوتے ہیں۔ یہ لڑکا گیند کیلئے روتا رہے اور میں نماز پڑھتی رہوں۔ ایسی نماز کس کام کی۔

ممتاز مفتی