فقیر، دُرویش، مجذوب عام انسان نہیں ہوتے، وہ موجود کہیں ہوتے ہیں۔۔۔رہتے کہیں اور ہیں۔۔۔وہ کہتے Ú©Ú†Ú¾ ہیں مطلب، اشارہ Ú©Ú†Ú¾ اور ہوتا ہے۔۔۔وہ گنجلک راہوں Ú©Û’ راہی ہوتے ہیں۔۔۔اشارہ، کنائیہ، استعارہ۔۔۔وہ مستور گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ ابہام، قدم قدم پہ موجود ہوتا ہے۔۔۔ رَمزیں پٹاخے چھوڑتے ہیں۔۔ اُن Ú©ÛŒ Ø+رکات، باتوں اور عمل پہ اگر دھیان دھرا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ Ú©Ú†Ú¾ چھپا رہے ہیں۔۔۔ وہ سوال Ùˆ جواب اور بات ادھوری Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیتے ہیں۔ وہ سائل اور مسائل Ú©Ùˆ کسی ایسے مقام پہ لا Ú©Û’ کھڑا کردیتے ہیں کہ Ø¢Ú¯Û’ Ú©Ú†Ú¾ دکھائی ہی نہیں دیتا یا پھر اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے۔ قطعیّت میں بات نہیں ہوتی، درَیں اور درَوں معنویّت میں ہوتی ہے۔ کسی مصلØ+ت Ú©Û’ تØ+ت کبھی کبھی کوئی ایسی بات بھی کہ جاتے ہیں کہ مخاطب انگشت بدندآں رہ جاتا ہے۔۔۔ وہ خود ہی موقف اور خود ہی موقوف ہوتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر وہ فقیری ستر چھپانے Ú©ÛŒ خاطر قول Ùˆ فعل ہی Ú©Ú†Ú¾ کا Ú©Ú†Ú¾ کر گزرتے ہیں

Ø+َد وِچ اولیا، بے Ø+د رہوے پِیر
ساریاں Ø+داں جہڑا ٹپّے اوہدا ناں فقیر

(مُØ+مد ÛŒØ+یٰی خان۔ کاجل کوٹھا۔صفØ+ہ نمبر 364)