umdaaaaaa
تا دیر کڑی دھوپ میں یہ جسم جلے آج
جی چاہ رہا ہے کہ یہ سورج نہ ڈھلے آج
ایسا نہ ہو یہ کہہ کے دیئے لوگ بجھا دیں
یہ رات نہ مِل پائے گی سورج سے گلے آج
وہ جس کو بہت زعم ہے اعصاب پہ اپنے
دوچار قدم میری رفاقت میں چلے آج
خلقت جسے سُننے کیلئے بیٹھی ہے کب سے
وہ بات چھڑے بزم میں وہ ذکر چلے آج
آیا ہے نہ آئے گا پلٹ کر کوئی لمحہ
آنکھوں کو ملَے چاہے کوئی بات ملَے آج
اک اجنبی رستے کا سفر پیشِ نظر ہے
اے راز رگوں میں نہ کوئی وہم پلے آج