گالی سن کر بلکہ یوں کہئے کہ لفظ "گالی" سن کر ہمیں تین Ø+ضرات بری طرØ+ یاد آتے ہیں۔ ایک گورنر جنرل غلام Ù…Ø+مد، دوسرے راز مراد آبادی اور تیسرے ساقی فاروقی۔

ساقی نہ تو باغی ہیں، نہ جھگڑالو ہیں، یہ لڑاکا بھی نہیں اور یہ بھی درست نہیں کہ کوئی اور نہ ملے تو یہ خود سے لڑتے ہیں۔ ساقی بہت Ø¢Ú¯Û’ تک دیکھنے والے انسان ہیں اور جب Ù…Ø+سوس کرتے ہیں کہ جہاں تک ان Ú©ÛŒ نگاہ جاتی ہے وہاں دوسروں Ú©ÛŒ Ú©ÛŒ نظر نہیں پہنچتی تو یہ اس نظر Ú©ÛŒ کوتاہی Ú©Ùˆ مارنے دوڑتے ہیں۔ پورب Ú©Û’ گاؤں دیہات میں لوگ جب ماؤں سے پوچھا کرتے تھے کہ تمھارا لڑکا اب کتنا بڑا ہو گیا تو وہ خوش ہو کر بتایا کرتی تھیں کہ گالیاں دینے لگا ہے۔
ساقی کا قصہ بھی یہی ہے کہ یہ بڑے ہو گئے ہیں۔

رضا علی عابدی کی کتاب " جانے پہچانے " سے اقتباس