سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجلسی عادات بے حد پاکیزہ اور مقبول تھیں۔ آپ غرباء میں رہ کر خوش ہوتے ، ہر ادنی اور اعلی کو پہلے سلام کرتے ، اگر کوئی ساتھ چلتا تو ہاتھ میں ہاتھ دے دیتے۔ بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں بھی پہلے سلام کرتے ، مصافحہ کے لئے پہلے ہاتھ بڑھاتے ، کوئی چیز خواہ کس قدر بھی کم ہوتی ، اس کے کھانے میں دوستوں کو ضرور شامل فرما لیتے۔ گھوڑے پر سوار ہوتے ، تو دوسروں کو پیچھے بٹھا لیتے۔ خواہ کیسا ہی حقیر شخص دعوت دیتا ، قبول فرما لیتے۔ آپ کی زبان اور ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچی۔ کوئی ناگوار معاملہ پیش آ جاتا تو ہمیشہ درگزر سے کام لیتے اور معاف فرماتے۔ عیسائی اور یہودی بھی اگر کچھ تحفہ بھیجتے تو قبول فرماتے اور خود بھی انہیں تحفہ بھیجتے۔ اگر کوئی شخص پاس آ بیٹھتا تو نماز مختصر کر دیتے۔ مہمانوں کی خدمت کرتے اور ان کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے۔ کسی کی برائی اور عیب میں شامل نہ ہوتے۔ دوستوں سے فرماتے ، میرے پاس کسی کی شکایت نہ کرو۔ میں چاہتا ہوں کہ جب دنیا سے جاوں تو میرا دل سب کی طرف سے صاف ہو۔ دوستوں کے حق صحبت کو بہت ملحوظ رکھتے۔ آپ ایک شخص کے ساتھ جنگل میں نکلے آپ نے دو مسواکیں نکالیں ، ایک سیدھی تھی اور دوسری ٹیڑھی۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ٹیڑھی مسواک خود لی اور سیدھی اس شخص کو دی۔ اس نے عرض کیا ، اچھی مسواک رہنے دیں۔ فرمایا "نہیں" اگر کوئی شخص ایک گھڑی بھی کسی کے ساتھ رہے تو قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ حق صحبت بجا لایا کہ نہیں؟
ایک غریب آدمی مسجدِ نبوی میں جھاڑو دیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوگیا تو کئی دفعہ آپ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ یہ شخص آدھی رات کے قریب فوت ہوا اور اسی وقت دفن کر دیا گیا۔ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو بہت ناراضگی کا اظہار فرمایا ، پھر اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔
رسولِ وحدت از علامہ سید سلیمان ندوی سے اقتباس