یہ دلچسپ واقعہ اٹلی کی مشہور ہیروئن مارشیلا انجلو کا ہے، جواب الحمدلله فاطمہ عبدالله ہو چکی ہیں ، ہم یہ واقعہ انہی کی زبانی بیان کر رہے ہیں، فاطمہ عبدالله بتاتی ہیں:
میں ایک متعصب عیسائی خاندان میں پیدا ہوئی ، میرا تعلق اٹلی سے ہے ، میرا بچپن جنیوا میں گزرا، بعد میں ہم لوگ روم منتقل ہو گئے ۔ یہاں میں نے آرٹس اکیڈمی میں داخلہ لے لیا، میں اپنی خوب صورتی کی وجہ سے ہمیشہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی تھی ۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہی میں نے ماڈلنگ بھی کرنی شروع کر دی تھی ۔ روم کے سبھی فیشن شوز میں مجھے بلایا جاتا تھا۔ ان شوز میں شرکت سے میری شہرت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا اور مجھے فلموں میں بھی کام ملنے لگا، میرے لیے شہرت اور دولت کے دروازے کھل گئے۔ آرٹس اکیڈمی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میری خواہش اطالوی سینما پر چھانا تھا۔ اٹلی کے مشہور پروڈیوسر بیٹروجرائس نے مجھے اپنی فلم کے لیے ہیروئن منتخب کر لیا۔ اس فلم کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور پھر میں کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کر تی گئی۔
دوسری عالمی جنگ پر بننے والی فلم کی شوٹنگ کے لیے مجھے اپنی یونٹ کے ساتھ مصر کے ایک معروف شہر مرسی مطروح جانا ہوا وہ سفر میرے لیے روشنی کا سفرثابت ہوا اورمیری زندگی کا رخ ہی پلٹ گیا۔ اس شہر سے گزرتے ہوئے ہمیں ایک مقام پر تھوڑی دیر کے لیے رکنا پڑا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں پر موجود ایک عمارت سے متصل حصے میں کچھ لوگ ہاتھ منھ دھونے کے بعد جوتے اتار کر عمارت میں داخل ہو رہے ہیں او روہ قطاروں میں کھڑے ہو کر اٹھنے بیٹھنے کا سا عمل کر رہے ہیں، اس منظر کو دیکھ کر مجھے تجسس ہوا اور میں وہ منظر قریب سے دیکھنے کا رسے اتر کر اس عمارت کے قریب چلی گئی ۔ وہاں پہنچی تو دیکھا کہ اب وہ سب لوگ بیٹھے پر سکون انداز میں کچھ پڑھ رہے ہیں ، اُن میں سے کسی نے بھی میری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ اس مشاہدے کے پر سکون لمحات مجھے اپنی پوری زندگی میں کبھی میسر نہیں آئے تھے۔ وہاں لوگوں سے میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ عمارت مسجد ہے ، اندر موجود لوگ مسلمان ہیں او رعبادت کر رہے ہیں ۔ میں نے زندگی میں پہلی بار مسجد دیکھی تھی، سچ کہوں تو مسلمان نام کی جماعت کو ہی پہلی بار دیکھا تھا۔ پتہ نہیں کیوں دوسرے دن میں کھچی کھچی پھر انہی وقتوں میں مسجد کی طرف چلی گئی ، میں دوبارہ مسلمانوں کی اس جماعت کو عبادت کرتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی ۔ انہیں منظم طریقے سے عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے اس وقت قلبی سکون کا احساس ہوا تھا او رعبادت کے لیے ان لوگوں کی پاکبازی وبرابری پر مجھے رشک آیا تھا۔ نماز ختم ہونے کے بعد جب لوگ مسجد سے باہر آئے تو میں نے ایک دو لوگوں سے اُن کی عبادت سے متعلق بات چیت کی ۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے وہ میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے تھے۔ وہ بہت ہی نیک طبیعت اور سادہ مزاج لوگ تھے ۔ وہ مجھے بہن او ربیٹی کہہ کر بات کر رہے تھے جب کہ میں نے اپنی اس وقت کی عمر تک اپنی قوم کے لوگوں کو اپنے اوپر بدنظر پایا تھا، یہاں تک کہ اپنے لیے بیٹی اور بہن جیسے خلوص بھرے الفاظ میں نے کسی سے نہیں سنے تھے۔
مصر میں شوٹنگ کے ختم ہونے کے بعد میں فلمی یونٹ کے ساتھ اٹلی لوٹ آئی ۔ اٹلی میں میرا ایک دوست شوہر کی طرح میرے ساتھ رہتا تھا۔ گھر واپس آنے کے بعد میں نے اس رشتے کی حرمت پر بہت غور کیا، کافی غوروفکر کے بعد اب اس رشتے میں مجھے خرابی کا احساس ہونے لگا۔ اُس مسجد میں لوگوں کی عبادت، میرے سوال پر نیچی نظریں رکھ کر ان کا مجھ سے بات کرنا اور بیٹی بہن کہہ کر مخاطب ہونا، اس سب نے مجھے اُن مسلمانوں سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میرے قلب پر ان کی عبادت واخلاق کا بہت اچھا اثر پڑا۔ مجھے اپنے منھ بولے شوہر کے رشتے سے گھن آنے لگی اور میں نے اس سے عملاً علیحدگی اختیار کر لی۔ میں فلموں کے مزید معاہدوں پر دستخط کرنے سے گریز کرنے لگی ۔ میں اپنے گھر کے خاموش حصے میں بیٹھ کر ان مسلمانوں کی عبادت سے متعلق گھنٹوں سوچتی رہتی، میرے ذہن میں مصر کی وہ چھوٹی سے مسجد، اُن سادہ سے مسلمانوں کے اخلاق، ان کی عبادت کی سادگی، نماز میں چھوٹے بڑے کی برابری ، ان لوگوں کا مجھے نظر اٹھا کر نہ دیکھنا، میرے لیے بہن اور بیٹی جیسے پاک الفاظ کہنا یہ ساری باتیں میرے قلب وذہن پر کچھ اس طرح نقش ہو گئی تھیں کہ میں تصور ہی تصور میں بار بار مصر کی اسی مسجد میں پہنچ جاتی۔
ایک روز میں ایک راستے سے گزر رہی تھی کہ میری نظر ایک بورڈ پر پڑی ،جس پر لکھا ہوا تھا ” مرکز اسلام ،روم“ میں اس عمارت میں داخل ہو گئی ، وہاں موجود لوگ میرے ساتھ بہت شفقت سے پیش آئے ۔ میں نے ان سے دینِ اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے کچھ کتابیں طلب کیں، انہوں نے ایک پیکٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا، جس پر لکھا ہوا تھا”بھائیوں کی جانب سے اپنی محترم بہن کی خدمت میں ایک ہدیہ“ میں نے گھر پہنچ کر جب یہ پیکٹ کھولا تو اس میں سے اطالوی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ او رکچھ کتابچے برآمد ہوئے۔ کتابچوں میں خاص طور پر اسلام میں عورتوں کے حقوق اور نبی رحمت صلی الله علیہ و سلم کے ازواج مطہرات کے بارے میں نظریات، تفکرات اور اعمال پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی گئی تھی ۔ میں ان کتابچوں کا گھنٹوں مطالعہ کرتی رہی اور یہ مطالعہ ہر بار نور اور ہدایت کا ایک نیا باب روشن کرتا رہا ۔ کتابوں کے مطالعہ کے بعد میں نے سوچا جو چیز دل میں بھی آگئی ہے تو اسے قبول کرنے میں دیر کیسی؟ یہ سوچ کر میں اسلامی مرکز پہنچی اور انتظامیہ سے اسلام قبول کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ میرا خیال تھا کہ اسلام قبول کرنے کی کارروائی میں کچھ وقت لگے گا مگر اسلامی مرکز والوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے میں کسی خاص کارروائی کی ضرورت نہیں ، ان کا کہنا تھا کہ جوباتیں اور عقائد دل سے آپ نے مان لی ہیں، یہی زبان سے دہرالو، میں نے ایسا ہی کیا ، انہوں نے مجھے کلمہ شہادت اور اس کا ترجمہ زبان سے کہلوایا۔ الحمدلله! اب میں مسلمان ہوں۔ مجھے اپنے اند ربھی اسی سکون کا احساس ہے، جو میں نے مصر میں عبادت کرتے ہوئے لوگوں کے چہروں پر دیکھا تھا، الحمدلله! اب میں بھی اسلامی مرکز کی اہم ممبر ہوں۔
میرا وہ دوست جس کے ساتھ میں کافی وقت گزار ا اور میں اس کو پسند بھی کرتی تھی میں نے سوچا اسے بھی دین اسلام کی دعوت دوں اور اسلام کی خوبیاں اس کے سامنے بھی پیش کروں۔ میں اس سے ملنے اسی فلیٹ پر پہنچی جہاں میں نے اندھیرے کی دنیا کے برسوں گزارے تھے۔ میں نے اسے اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بتایااور اسلام کے بارے میں اسے موٹی موٹی باتیں بتائیں۔ اس نے مجھے ٹالنے کے لیے کہا یہ مذہب بڑھاپے کے لیے بڑا مناسب معلوم ہوتا ہے، اس لیے 30 سال بعد اس کے بارے میں سوچیں گے، لیکن میں نے ہار نہیں مانی اور جب بھی میں اس سے ملتی اسلام کی اچھائیاں اسے بتاتی اور بڑی مشکل سے میں نے اسے اسلامی مرکز چلنے کے لیے راضی کیا، مرکز والوں کی تبلیغ اسلام سے وہ بہت متاثر ہوا، اس نے کہا کہ یہاں آکر مجھے پتہ چلا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پوری انسانیت کی فلاح کی بات کرتے تھے، جب کہ اب تک میں یہی سمجھتا تھا کہ اسلام قتل وغارت گری کی ترغیب دینے والا مذہب ہے او راگر میں نے اسلام قبول کیا تو مسلمانوں کی طرف سے چند عیسائیوں کو قتل کرنے کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا، یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا۔
کچھ دن بعد میرے دوست نے بھی اسلام قبول کر لیا، مرکز کے لوگوں نے اس کا نام عبدالله رکھا، وہ میرے ساتھ پابندی سے دینی تعلیم کے لیے مرکز چلنے لگا۔ مرکز کے ایک سا تھی نے ہم سے کہا کہ تم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو ، شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ ہم دونوں بخوشی اس کے لیے راضی ہو گئے او رمرکز کے ہی ایک بزرگ نے ہمارا نکاح پڑھایا اور اس طرح میں مارشیلا انجلو سے فاطمہ عبدالله ہو گئی۔
اب ہم دونوں اسلامی مرکز کے مبصر ہیں اور معاشرے میں دین اسلام کے بارے میں پھیلی غلط فہمیاں دور کرنے اور دین اسلام کی تبلیغ کا کام کر رہے ہیں