میرے کمرے میں اتر آئی خموشی
پھر سے
سایہ شام غریباں کی طرح
شورش دیدہ گریاں کی طرح
موسم کنج بیاباں کی طرح
کتنا بے نطق ہے یادوں کا ہجوم
جیسے ہونٹوں کی فضا یخ بستہ
جیسے لفظوں کو گہن لگ جاۓ
جیسے روٹھے ہوے رستوں کے مسافر چپ چاپ
جیسے مرقد کے سرہانے کوئی خاموش چراغ
جیسے سنسان سے مقتل کی صلیب
جیسے کجلائی ہوئی شب کا نصیب
میرے کمرے میں
اتر آئی خموشی
پھر سی