حلاج کا نام حسین بن منصور الحلاج اور کنیت ابومغیث ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کی کنیت ابوعبداللہ تھی
عشق و محبت
محبت نام ہے پسندیدہ چیز کی طرف میلان طبع کا اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں، اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ عاشق محبوب کا بندہء بے دام بن جاتا ہے اور مال و دولت اس پر قربان کر دیتا ہے۔ زلیخا کی مثال لے لیجئے جس نے یوسف علیہ السلام کی محبت میں اپنا حسن اور مال و دولت قربان کر دیا، زلیخا کے پاس ستر اونٹوں کے بوجھ کے برابر جواہر اور موتی تھے جو عشقِ یوسف میں نثار کر دئیے، جب بھی کوئی یہ کہہ دیتا کہ میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا ہے تو وہ اسے بیش قیمت ہار دیتی یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ رہا، اس نے ہر چیز کا نام یوسف رکھ چھوڑا اور فرطِ محبت میں یوسف علیہ السلام کے سوا سب کچھ بھول گئی تھی، جب آسمان کی طرف دیکھتی تو اسے ہر ستارے میں یوسف کا نام نظر آتا تھا۔
کہتے ہیں کہ جب زلیخا ایمان لائی اور حضرت یوسف علیہ السلام کی زوجیت میں داخل ہوئی تو سوائے عبادت و ریاضت اور توجہ الی اللہ کے اسے کوئی کام نہ تھا، اگر یوسف علیہ السلام اسے دن کو اپنے پاس بلاتے تو کہتی رات کو آؤں گی اور رات کو بلاتے تو دن کا وعدہ کرتی۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا، زلیخا! تو تو میری محبت میں دیوانی تھی، جواب دیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب میں آپ کی محبت کی ماسیت سے واقف نہ تھی، اب میں آپ کی محبت کی حقیقت پہچان چکی ہوں اس لئے اب میری محبت میں تمہاری شرکت بھی گوارا نہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا مجھے اللہ نے اس بات کا حکم فرمایا ہے اور مجھے بتلایا ہے کہ تیرے بطن سے اللہ تعالٰی دو بیٹے پیدا کرے گا اور دونوں کو نبوت سے سرفراز فرمایا جائے گا، زلیخا نے کہا، اگر یہ حکمِ خداوندی ہے اور اس میں حکمتِ الٰہی ہے تو میں سر تسلیم خم کرتی ہوں۔
مجنوں نے اپنا نام لیلٰی بتلایا
مجنوں سے کسی نے پوچھا تیرا نام کیا ہے ؟ بولا، لیلٰی! ایک دن اس سے کسی نے کہا لیلٰی مر گئی ؟ مجنوں نے جواب دیا، لیلٰی نہیں مری وہ تو میرے دل میں ہے اور میں ہی لیلٰی ہوں، ایک دن جب مجنوں کا لیلٰی کے گھر سے گزر ہوا تو وہ ستاروں کو دیکھتا ہوا گزرنے لگا، کسی نے کہا نیچے دیکھو شاید تمہیں لیلٰی نظر آ جائے۔ مجنوں بولا، میرے لئے لیلٰی کے گھر کے اوپر چمکنے والے ستارے کی زیارت ہی کافی ہے۔
محبت کی ابتداء اور انتہاء
جب منصور حلاج کو قید میں اٹھارہ دن گزر گئے تو جناب شبلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان کے پاس جاکر دریافت کیا، اے منصور! محبت کیا ہے ؟ منصور نے جواب دیا۔ آج نہیں کل یہ پوچھنا۔ جب دوسرا دن ہوا اور ان کو قید سے نکال کر مقتل کی طرف لے گئے تو وہاں منصور نے شبلی کو دیکھ کر کہا، شبلی! محبت کی ابتداء جلنا اور انتہاء قتل ہو جانا ہے۔
اشارہ
جب منصور رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی نگاہِ حق بیں نے اس حقیقت کو پہچان لیا کہ
الا کل شیئی ما خلاللہ باطل
اللہ تعالٰے کی ذات کے سوا ہر شے باطل ہے۔
اور ذاتِ الٰہی ہی حق ہے، تو وہ اپنے نام تک کو بھول گئے لٰہذا جب ان سے سوال کہا گیا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ تو جواب دیا میں حق ہوں۔
منتہٰی میں ہے کہ محبت کا صدق تین چیزوں میں ظاہر ہوتا ہے، محب، محبوب کی باتوں کو سب کی باتوں سے اچھا سمجھتا ہے، اس کی مجلس کو تمام مجالس سے بہتر سمجھتا ہے اور اس کی رضا کو اوروں کی رضا پر ترجیح دیتا ہے۔
کہتے ہیں کہ عشق پردہ دری کرنے والا اور رازوں کا افشاء کرنے والا ہے اور وجد ذکر کی شیرنی کے وقت روح کا غلبہء شوق کا بار اٹھانے سے عاجز ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر وجد کی حالت میں انسان کا کوئی عضو بھی کاٹ لیا جائے تو اسے محسوس تک نہیں ہوگا۔
حکایت
ایک آدمی دریائے فرات میں نہا رہا تھا، اس نے سنا کہ کوئی شخص یہ آیت پڑھ رہا ہے:۔
وامتازوا الیوم ایھا المجرمون
اے مجرمو! آج علٰیحدہ ہو جاؤ۔
یہ سنتے ہی وہ تڑپنے لگا اور ڈوب کر مر گیا۔
محمد بن عبداللہ بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں، میں نے بصرہ میں ایک بلند مقام پر کھڑے ہوئے ایک نوجوان کو دیکھا جو لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ جو عاشقوں کی موت مرنا چاہے اس اسے اس طرح مرنا چاہئیے (کیونکہ عشق میں موت کے بغیر کوئی لطف نہیں ہے) اتنا کہا اور وہاں سے خود کو گرا دیا، لوگوں نے جب اسے اٹھایا تو وہ دم توڑ چکا تھا۔ جناب جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے کہ تصوف اپنی پسند کو ترک کر دینے کا نام ہے۔
حکایت
زہرالریاض میں ہے، حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں ایک دن میں خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا، میں نے وہاں ستون کے قریب ایک برہنہ نوجوان مریض کو پڑے دیکھا جس کے دل سے رونے کی آوازیں نکل رہی تھیں، میں نے اس کے قریب جاکر اسے سلام کیا اور پوچھا، تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں ایک غریب الوطن عاشق ہوں۔ میں اس کی بات سمجھ گیا اور میں نے کہا میں بھی تیری طرح ہوں، وہ رو پڑا، اس کا رونا دیکھ کر مجھے بھی رونا آ گیا۔ اس نے مجھے دیکھ کر کہا تم کیوں رو رہو ؟ میں نے کہا، اس لئے کہ تیرا اور میرا مرض ایک ہے۔ اس نے چیخ ماری اور اس کی روح پرواز کر گئی۔ میں نے اس پر اپنا کپڑا ڈالا اور کفن لینے چلا آیا۔ جب میں کفن لیکر واپس پہنچا تو وہ جوان وہاں نہیں تھا۔ میرے منہ سے بیساختہ سبحان اللہ نکلا۔ تب میں نے ہاتفِ غیبی کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا، اے ذوالنون! اس کی زندگی میں شیطان اسے ڈھونڈتا تھا مگر نہ پا سکا، مالکِ دوزخ نے اسے ڈھونڈا مگر نہ پا سکا، رضوانِ جنت نے اسے تلاش کے باوجود نہ پا سکا، میں نے پوچھا وہ پھر کہاں گیا ؟ جواب آیا:۔
ھو فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر۔
اپنے عشق، کثرتِ عبادت اور تعجیلِ توبہ کی وجہ سے وہ اپنے قادر، رب العزت کے حضور پہنچ گیا ہے۔
عاشق کی پہچان
ایک شیخ سے عاشق کے متعلق پوچھا گیا، انہوں نے کہا عاشق میل ملاپ سے دور، تنہائی پسند، غور و فکر میں ڈوبا ہوا اور چپ چپ رہتا ہے جب اسے دیکھا جائے وہ نظر نہیں آتا، جب بلایا جائے تو سنتا نہیں، جب بات کی جائے تو سمجھتا نہیں اور جب اس پر کوئی مُصیبت آ جائے تو غمگین نہیں ہوتا، وہ بھوک کی پروا اور برہنگی کا احساس نہیں رکھتا، کسی کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتا، وہ تنہائی میں اللہ تعالٰی سے التجائیں کرتا ہے، اس کی رحمت سے انس و محبت رکھتا ہے، وہ دنیا کیلئے دنیا والوں سے نہیں جھگڑتا۔
جناب ابو تراب بخشی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے عشق کی علامات میں یہ چند شعر کہے ہیں۔
لا تخد عن فلل جیب دلائل
ولدیہ من تحف الحبیب وسائل
منہا تنمہ بمر بلائہ
وسرورہ فی کل ماھو فاعل
فالمنع منہ عطیۃ مقبولۃ
والفقر اکرام وبر عاجل
ومن الدلائل ان تری فی عزمہ
طوع الجبیب وان الح العاذل
ومن الدلائل ان یری متبسما
والقلب فیہ من الحبیب بلائل
ومن الدلائل ان یری متفہما
لکلام من یحظی لدیہ السائل
ومن الدلائل ان یری متقشفا
متحفظا من کل ماھو قائل
تو دھوکہ نہ دے کیونکہ محبوب کے پاس دلائل اور عاشق کے پاس محبوب کے تحفوں کے وسائل ہیں۔
ایک علامت یہ ہے کہ وہ اپنی تلخ آزمائش سے لطف ابدوز ہوتا ہے، اور محبوب جو کرتا ہے وہ اس پر خوش ہوتا ہے۔
اس کی طرف سے منع کرنا بھی عطیہ ہے اور فقر اس کیلئے عزت افزائی اور ایک فوری نیکی ہے۔
ایک علامت یہ ہے کہ وہ محبوب کی اطاعت کا پختہ ارادہ رکھتا ہے، اگر اسے ملامت کرنے والے ملامت کریں۔
ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے مسکراتا ہوا پاؤ گے اگرچہ اس کے دل میں محبوب کی طرف سے آگ سلگ وہی ہوتی ہے۔
ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے خطاکاروں کی گفتگو سمجھتا ہوا پاؤ گے۔
اور ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے ہر اس بات کا حفاظت کرنے والا پاؤ گے جسے وہ کہتا ہے۔
حکایت
حضرت عیسٰی علیہ السلام ایک جوان کے قریب سے گزرے جو باغ کو پانی دے رہا تھا، اس نے آپ سے کہا اللہ سے دعاء کیجئے، اللہ تعالٰی مجھے ایک ذرہ اپنے عشق کا عطا فرما دے۔ آپ نے فرمایا ایک ذرہ بہت بڑی چیز ہے، تم اس کے تحمل کی استطاعت نہیں رکھتے، کہنے لگا اچھا آدھے ذرہ کا سوال کیجئے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے رب تعالٰی سے سوال کیا، اے اللہ! اسے آدھا ذرہ اپنے عشق کا عطا فرما دے، اس کے حق میں یہ دعاء کرکے آپ وہاں سے روزانہ ہو گئے۔
کافی مدت کے بعد آپ پھر اسی راستہ سے گزرے اور اس جوان کے متعلق سوال کیا۔ لوگوں نے کہا وہ تو دیوانہ ہوگیا ہے اور کہیں پہاڑوں کی طرف نکل گیا ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے رب سے دعاء کی اے اللہ! میری اس جوان سے ملاقات کرا دے۔ پس آپ نے دیکھا، وہ ایک چٹان پر کھڑا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آپ نے اسے سلام کہا مگر وہ خاموش رہا۔ آپ نے کہا مجھے نہیں جانتے میں عیسٰے ہوں ؟ اللہ تعالٰی نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اے عیسٰی! جس کے دل میں میری محبت کا آدھا ذرہ موجود ہو وہ انسانوں کی بات کیسے سنبے گا ؟ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! اگر اسے آری سے دو ٹکڑے بھی کر دیا جائے تو اسے محسوس نہ ہوگا۔
جو شخص تین باتوں کا دعوٰی کرتا ہے اور خود ان کو تین چیزوں سے پاک نہیں رکھتا تو اس کا دعوٰی باطل ہے۔
1۔ جو شخص ذکرِ خدا کی حلاوت کو پانے کا دعوٰی کرتا ہے مگر دنیا سے بھی محبت رکھتا ہے۔
2۔ جو اپنے اعمال میں اخلاص کا دعوٰی کرتا ہے مگر لوگوں سے اپنی عزت افزائی کا خواہشمند ہے۔
3۔ جو اپنے خالق کی محبت کا دعوٰی کرتا ہے مگر اپنے ننفس کو ذلیل نہیں کرتا۔
فرمان نبوی ہے کہ میری امت پر عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے، جب وہ پانچ چیزوں سے محبت کریں گے اور پانچ چیزوں کو بھول جائیں گے۔
1۔ دنیا سے محبت رکھیں گے، آخرت کو بھول جائیں گے۔
2۔ مال سے محبت رکھیں گے اور یومِ حساب کو بھول جائیں گے۔
3۔ مخلوق سے محبت رکھیں گے مگر خالق کو بھول جائیں گے۔
4۔ گناہوں سے محبت رکھیں گے مگر توبہ کو بھول جائیں گے۔
5۔ مکانوں سے محبت رکھیں گے اور قبر کو بھول جائیں گے۔
حضرت منصور بن عمار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک جوان کو نصیحت کرتے ہوئے کہا، اے جوان! تجھے تیری جوانی دھوکے میں نہ ڈالے، کتنے جوان ایسے تھے جنہوں نے توبہ کو مؤخر اور اپنی امیدوں کو طویل کر دیا، موت کو بھلا دیا اور یہ کہتے رہے کہ کل توبہ کر لیں گے، پرسوں توبہ کرلیں گے یہاں تک کہ اسی غفلت میں ملک الموت آگیا اور وہ اندھیری قبر میں جا سوئے، نہ انہیں مال نے، نہ غلاموں نے، نہ اولاد نے اور نہ ہی ماں باپ نے کوئی فائدہ دیا، فرمان الٰہی ہے کہ:-
لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم ہ
اس دن اموال و اولاد کچھ فائدہ نہ دیں گے۔
اے رب ذوالجلال! ہمیں موت سے پہلے توبہ کی توفیق دے، ہمیں خواب غفلت سے ہوشیار فرما دے اور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب فرما۔
مومن کی تعریف یہ ہے کہ وہ ہر گھڑی توبہ کرتا رہے اور اپنے گذشتہ گناہوں پر شرمندہ رہے۔ تھوڑی سی متاعِ دنیا پر راضی رہے، دنیاوی مشاغل کو بھول کر آخرت کی فکر کرے اور خلوصِ قلب سے اللہ تعالٰی کی عبادت کرتا رہے۔
ایک بخیل منافق
ایک منافق انتہائی بخیل تھا، اس نے اپنی بیوی کو قسم دی کہ اگر تونے کسی کو کچھ دیا تو تجھ پر طلاق ہے۔ ایک دن ایک سائل ادھر آ نکلا اور اس نے خدا کے نام پر سوال کیا، اور پوچھا تجھے یہ روٹیاں کس نے دی ہیں ؟ سائل نے اس کے گھر کے متعلق بتایا کہ مجھے وہاں سے ملی ہیں۔ بخیل تیز قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا اور گھر پہنچ کر بیوی سے بولا میں نے تجھے قسم نہیں دی تھی کہ کسی سائل کو کچھ نہیں دینا ؟ بیوی بولی سائل نے اللہ کے نام پر سوال کیا تھا لٰہذا میں رد نہ کر سکی۔
کنجوس نے جلدی سے تنور بھڑکایا، جب تنور سرخ ہو گیا تو بیوی سے کہا اٹھ اللہ کے نام پر تنور میں داخل ہوجا۔ عورت کھڑی ہوگئی اور اپنے زیورات لیکر تنور کی طرف چل پڑی، کنجوس چلایا کہ زیورات تو یہیں چھوڑ جا۔ عورت نے کہا آج میرا محبوب سے ملاقات کا دن ہے، میں اس کی بارگاہ میں بن سنور کر جاؤں گی، اور جلدی سے تنور میں گھس گئی۔ اس بدبخت نے تنور کو بند کر دیا۔ جب تین دن گزر گئے تو اس نے تنور کا ڈھکنا اٹھا کر اندر جھانکا مگر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ عورت اللہ تعالٰی کی قدرت سے اس میں صحیح و سالم بیٹھی ہوئی تھی۔ ہاتفِ غیبی نے آواز دی کیا تجھے علم نہیں کہ آگ ہمارے دوستوں کو نہیں جلاتی ؟
حضرت آسیہ کا ایمان
حضرت آسیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنا ایمان اپنے شوہر فرعون سے چھپایا تھا، جب فرعون کو اس کا پتہ چلا تو اس نے حکم دیا کہ اسے گوناگوں عذاب دئیے جائیں تاکہ حضرت آسیہ ایمان کو چھوڑ دیں لیکن آسیہ ثابت قدم رہیں۔ تب فرعون نے میخیں منگوائیں اور ان کے جسم پر میخیں گڑوا دیں اور فرعون کہنے لگا اب بھی وقت ہے ایمان کو چھوڑ دو مگر حضرت آسیہ نے جواب دیا، تو میرے وجود پر قادر ہے لیکن میرا دل میرے رب کی پناہ میں ہے، اگر تو میرا ہر عضو کاٹ دے تب بھی میرا عشق بیٹھتا جائے گا۔
موسٰی علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا، آسیہ نے موسٰی علیہ السلام سے پوچھا میرا رب مجھ سے راضی ہے یا نہیں ؟ حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا، اے آسیہ! آسمان کے فرشتے تیرے انتظار میں ہیں اور اللہ تعالٰی تیرے کارناموں پر فخر فرماتا ہے، سوال کر تیری ہر حاجت پوری ہوگی۔ آسیہ نے دعاء مانگی اے میرے رب میرے لئے اپنے جوارِ رحمت میں جنت میں مکان بنادے، مجھے فرعون اس کے مظالم اور ان ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمایا۔
حضرت سلمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں، آسیہ کو دھوپ میں عذاب دیا جاتا تھا، جب لوگ لوٹ جاتے تو فرشتے اپنے پروں سے آپ پر سایہ کیا کرتے تھے اور وہ اپنے جنت والے گھر دیکھتی رہتی تھیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ جب فرعون نے حضرت آسیہ کو دھوپ میں لٹاکر چار میخیں ان کے جسم میں گڑوا دیں اور ان کے سینے پر چکی کے پاٹ رکھ دئیے گئے تو جناب آسیہ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر عرض کی،
رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ
اے میرے رب میرے لئے اپنے جوارِ رحمت میں جنت میں مکان بنا۔ (آخر تک)
جناب حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں اللہ تعالٰی نے اس دعاء کے طفیل آسیہ کو فرعون سے باعزت رہائی عطا فرمائی اور ان کو جنت میں بلا لیا جہاں وہ ذی حیات کی طرح کھاتی پیتی ہیں۔
اس حکایت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مصائب اور تکالیف میں اللہ کی پناہ مانگنا، اس سے التجا کرنا اور رہائی کا سوال کرنا مومنین اور صالحین کا طریقہ ہے۔
(الماخوذ۔۔۔۔ کتاب “مکاشفۃ القلوب“)