ذرا نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھو کتنا اونچا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی اس پر سے گرے تو بہت چوٹ آتی ہے ۔
بعض لوگ آسمان سے گرتے ہیں تو کھجور میں اٹک جاتے ہیں وہیں بیٹھے کھجوریں کھاتے رہتے ہیں ۔

لیکن کھجوریں بھی تو کہیں کہیں ہوتی ہیں ۔

ہر جگہ نہیں ہوتیں۔

کہتے ہیں پہلے زمانے میں آسمان اتنا اونچا نہیں ہوتا تھا ۔

غالب نام کا شاعر جو دو سو سال پہلے ہوا ہے ۔

ایک جگہ کسی سے کہتا ہے !

کیا آسامان کے برابر نہیں ہو میں ؟

جوں جوں چیزوں کی قیمتیں اونچی ہوتی گئیں آسمان اس سے باتیں کرنے کے لیے اوپر اٹھتا گیا اب نہ چیزوں کی قیمتیں نیچے آئیں نہ آسمان نیچے اترے ۔

ایک زمانے میں آسمان پر صرف فرشتے رہا کرتے تھے پھر ہماشما جانے لگے ۔

جو خود نہ جا سکتے تھے ان کا دماغ چلا جاتا تھا ۔

یہ نیچے دماغ کے بغیر ہی کام چلاتے تھے ۔

بڑی Ø+د تک اب بھی یہی صورت ہے Û”

پیارے بڑو ! راہ چلتے میں آسمان کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے تا کہ ٹھوکر نہ لگے جو زمین کی طرف دیکھ کر چلتا ہے اسے ٹھوکر نہیں لگتی ۔

ابنِ انشا " اردو کی آخری کتاب " سے اقتباس