walikumsalam
*resham*
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے
پھر تیری یاد ایک نیا زخم دینے چلی آئی ہے
بہاروں کے جزیروں سے خاموشیاں گنگنائی ہے
ہاتھوں کی لکیروں سے تیرا نام کریدنے آئی ہے
یہ خیالوں کا اختتام بھی
کوئی میرے حافظہ سے کردے
جو حصول ہوئے ہیں ماضی سےغم
اس فقدان میں پیار بھر دیں
کوئی خلاء سے کہہ دے یوں شور نا مچائے۔
زیست کہ اس سفر میں وہ بہار یاد نادلائے
اس خلش کا نشترجو میری روح پر لگائے
ان فضاؤں کو رسوا کرنے کیسی یہ ہوا چھائی ہے
وہ محبت تھی کیسی جس سے بغاوت کی صداء آئی ہے
لمحوں کی مسافت نے صدیوں کی سزا پائی ہے
ساکت سی ان سماعتوں میں
اے خلاء کیوں تونے شور لائی ہے
کوئی میرے زیست سے کہہ دے
وہ خزاں کی تاب سے نا بکھریں
رنجش کا ہاتھ تھامنے کیسی یہ خزاں آئی ہے
قاصر تھا یہ دل سمجھنے
کہ کس فضاء سے اضطراب کی ہوا آئی ہے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے
رشتوں کہ ذخیروں میں کیسا یہ تغافل تھا
شکوئے تھے اتنے نفس کی تشنگی سے
وقت کہ حصار میں محبت کو موت آئی ہے
فطرت میں ٹہر جائے سناٹوں کایہ شور کیوں
اس زاد سفر میں اسودگی کے یہ نشترکیوں
ناآشنا ناکردے وقت اپنے طلاطم سے
کوئی میری امید سے کہہ دیں
میری خواہش میں رنگِ بہار بھر دیں
تخلیق کریں اس خزاں میں ایسا موسم
جو اجل تک میری روح کو بہار کردیں
ایک تلخ حقیقت بھی وقت کا ہر زخم بھر دیں
جوتراش لیں اس خواہشوں کی دھوپ کو
اورمیری ذات کا تکمیل سفر کردیں
جو ہوا کہ ہر رخ کو پھر سے بہار بہار کردیں
اے دردتیرے سیلاب میں
خواہش کا مچلنا بھی عجب تھا
امید کہ اس چمن میں جیسے چپکے سے بہار آئی ہے
شاعرہ ریشم
ღ∞ ι ωιll αlωαуѕ ¢нσσѕє уσυ ∞ღ
*resham*
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے
پھر تیری یاد ایک نیا زخم دینے چلی آئی ہے
بہاروں کے جزیروں سے خاموشیاں گنگنائی ہے
ہاتھوں کی لکیروں سے تیرا نام کریدنے آئی ہے
یہ خیالوں کا اختتام بھی
کوئی میرے حافظہ سے کردے
جو حصول ہوئے ہیں ماضی سےغم
اس فقدان میں پیار بھر دیں
کوئی خلاء سے کہہ دے یوں شور نا مچائے۔
زیست کہ اس سفر میں وہ بہار یاد نادلائے
اس خلش کا نشترجو میری روح پر لگائے
ان فضاؤں کو رسوا کرنے کیسی یہ ہوا چھائی ہے
وہ محبت تھی کیسی جس سے بغاوت کی صداء آئی ہے
لمحوں کی مسافت نے صدیوں کی سزا پائی ہے
ساکت سی ان سماعتوں میں
اے خلاء کیوں تونے شور لائی ہے
کوئی میرے زیست سے کہہ دے
وہ خزاں کی تاب سے نا بکھریں
رنجش کا ہاتھ تھامنے کیسی یہ خزاں آئی ہے
قاصر تھا یہ دل سمجھنے
کہ کس فضاء سے اضطراب کی ہوا آئی ہے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے
رشتوں کہ ذخیروں میں کیسا یہ تغافل تھا
شکوئے تھے اتنے نفس کی تشنگی سے
وقت کہ حصار میں محبت کو موت آئی ہے
فطرت میں ٹہر جائے سناٹوں کایہ شور کیوں
اس زاد سفر میں اسودگی کے یہ نشترکیوں
ناآشنا ناکردے وقت اپنے طلاطم سے
کوئی میری امید سے کہہ دیں
میری خواہش میں رنگِ بہار بھر دیں
تخلیق کریں اس خزاں میں ایسا موسم
جو اجل تک میری روح کو بہار کردیں
ایک تلخ حقیقت بھی وقت کا ہر زخم بھر دیں
جوتراش لیں اس خواہشوں کی دھوپ کو
اورمیری ذات کا تکمیل سفر کردیں
جو ہوا کہ ہر رخ کو پھر سے بہار بہار کردیں
اے دردتیرے سیلاب میں
خواہش کا مچلنا بھی عجب تھا
امید کہ اس چمن میں جیسے چپکے سے بہار آئی ہے
شاعرہ ریشم
wow i'm so excited Aho
really happy shappy Ahem Ahem ....
Thank u so much 4 Hw sis Thank u Thank u Thank u ...
n Thankx alot every 1 4 urs votes n sweet wishing
with bleesing stay happy....
Last edited by *resham*; 01-04-2013 at 02:05 AM.
Mubarak hu