رواج، روایتیں، رسمیں پھولوں جیسی ہوں تو ان Ú©ÛŒ ڈور تھامے کوئی نہیں تھکتا، خوشبو کا سفر Ù…Ø+سوس ہوتا ہے- مگر یہی روایتیں خنجر Ú©ÛŒ نوکوں اور ببول Ú©Û’ کانٹوں جیسی ہوں تو ان پر چلنے والوں Ú©Û’ پیر لہولہان ہو جاتے ہیں، روØ+ جھلس جاتی ہے- ستم یہ ہے کہ ان روایتوں Ú©ÛŒ سلگتی بھٹی Ú©Ùˆ گرم رکھنے Ú©Û’ لیے عورت ذات ہمیشہ سے ایندھن Ú©Û’ طور پر استعمال ہوتی رہی ہے- اس Ú©Û’ دم سے روایتیں زندہ ہیں، اسی Ú©Û’ وجود سے مرد ذات کا فخر قائم ہے اور جانے کب تک قائم رہے گا-

آسیہ مرزا کی کتاب " در امید کے دریوزگر " سے اقتباس